پائلٹس کے جعلی لائسنز کا بیان انتہائی غفلت قومی ائیرلائن کی ساکھ متاثر کی گئی، جسٹس اطہر
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی عدالت نے ڈائریکٹر جنرل سول ایوی ایشن تعیناتی کیس میں آئندہ سماعت تک ڈی جی سول ایوی ایشن کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن عدالت میں جمع کرانے کی ہدایت کردی۔ عدالت نے کہا کہ اس عدالت نے ہمیشہ ایگزیکٹو کے کام کو ان پر چھوڑا ہے لیکن یہاں معاملہ مختلف ہے، یہاں معاملہ قومی ایئرلائن کی ساکھ اور قومی وقار کا ہے، سیکرٹری بورڈ کا چیئرمین ہے اور قانون میں کوئی گنجائش نہیں کہ چیئرمین کو ڈی جی کا چارج دیا جا سکے، سول ایوی ایشن ایک اہم ترین ریگولیٹری اتھارٹی ہے، بتائیں کتنے پائلٹس کے لائسنس جعلی ہونے کا بیان پارلیمنٹ کے فلور پر دیا گیا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس نے ان 262 پائلٹس کے لائسنس جعلی ہونے کا بتایا ہے، کیا ریگولیٹری اتھارٹی نے جعلی لائسنسز کے بارے میں بتایا۔ سیکرٹری ایوی ایشن نے کہاکہ جی، ایوی ایشن ڈویژن نے ہی یہ رپورٹ دی۔ جس پر عدالت نے کہاکہ ایوی ایشن ڈویژن کا اس میں کوئی کردار نہیں، ان 262 میں سے کتنے پائلٹس کے لائسنس درست نکلے، جس پر سیکرٹری ایوی ایشن نے بتایاکہ 50 پائلٹس کے لائسنس منسوخ ہو چکے ہیں، 32 مزید پائلٹس کے لائسنسز مشکوک ہیں۔ اس پر عدالت نے کہا کہ پھر یہ بتائیں کہ 262 پائلٹس کے لائسنس جعلی ہونے کا بیان کیسے دیا گیا۔ سیکرٹری سول ایوی ایشن نے کہا کہ ڈی جی سول ایوی ایشن نے اسکی منظوری دی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈی جی موجود ہی نہیں، اسکا چارج سیکرٹری کو کیسے دیا جا سکتا ہے۔ وفاقی حکومت ڈائریکٹر جنرل کی تعیناتی کرتی ہے اس کے پاس اضافی چارج دینے کا کوئی اختیار نہیں، اس کیس میں لاہور ہائی کورٹ کے حکم کی بھی خلاف ورزی کی گئی۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ قومی ایئرلائن کی ساکھ متاثر کی گئی، اس سے قبل عدالت نے ایسا ہی معاملہ وفاقی کابینہ کا احترام کرتے ہوئے انکے پاس بھیجا تھا، پارلیمنٹ کے فلور پر 262 پائلٹس کے لائسنس جعلی ہونے کا بیان دیا گیا آج کہہ رہے ہیں کہ صرف 82 ہیں، وفاقی حکومت سیکرٹری کو ڈی جی کا عہدہ نہیں دے سکتی تھی وہ بورڈ کے چیئرمین بھی ہیں، اتنے اہم ریگولیٹر ایسے چلیں گے تو وہی نتیجہ ہو گا جو ہو گیا کوئی تو اسکا ذمہ دار ہو گا، چیف جسٹس نے استفسارکیاکہ مستقل ڈائریکٹر جنرل کی تعیناتی کب تک کی جائے گی، اس معاملے پر انتہائی غفلت برتی گئی اور جعلی لائسنسز کا بیان دیا گیا۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ میں نے سیکرٹری سے کہا کہ جن کے لائسنس جعلی ہیں انکے نام سامنے لائیں، اس طرح ہمارے پوری دنیا میں ہزاروں پائلٹس کے لائسنس منسوخ ہونگے، ڈی جی ایوی ایشن اور سیکرٹری کا چارج ایک شخص کے پاس نہیں ہو سکتا، کابینہ نے سیکرٹری کو ڈی جی ایوی ایشن کا اضافی چارج دیا، میں نے حکومت کو بتایا کہ یہ قانون کی خلاف ورزی ہے،آئندہ دو سے تین دن میں نئے ڈی جی ایوی ایشن تعینات کر دیے جائیں گے،چیف جسٹس نے کہاکہ سیکرٹری صاحب آپکے جو غیرقانونی اقدامات ہیں انکا تحفظ کون کریگا، آپ نے جو اقدامات لئے وہ سارے خلاف قانون ہیں، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ یہ عدالت ایگزیکٹو کا احترام کرتی ہے لیکن احتیاطاً کہہ رہی ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے غیرقانونی ہے،جو اقدامات قانون کے خلاف جائیں گے وہ غیرقانونی قانونی قرار دیے جائیں گے،عدالت نے مذکورہ بالا ہدایات کے ساتھ سماعت8دسمبر تک کیلئے ملتوی کردی۔