• news

خریدار پوری قیمت نہ دیں تو کیا ایل این جی ،ہوا میں چھوڑوں

اسلام آباد (خصوصی نمائندہ) وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر نے کہا ہے کہ اگر ہم ایل این جی لے کر آتے ہیں جو مقامی گیس سے مہنگی ہے تو جب تک ہم اس ایل این جی کی قیمت وصول نہ کر پائیں اور ایسے خریدار جو پوری قیمت دینے کو تیار ہوں ہمارے پاس موجود نہ ہوں، اس وقت ہم انہیں ایل این جی نہیں بیچ سکتے۔ اس وقت ایل این جی کی قیمت 1100 روپے فی ملین بی بی ٹی یو بنتی ہے لیکن یہی اگر مقامی گیس ہو تو اس کی اوسط قیمت اس سے آدھی ہے۔ اگر ایل این جی فالتو لے آئیں اور لوگ وہ قیمت دینے کو تیار نہ ہوں تو کیا میں اس ایل این جی کو ہوا میں چھوڑوں۔ ان خیالات کا اظہار انہوںنے گزشتہ روز یہاں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فرازکے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ندیم بابر نے کہا کہ سب سے پہلی بات یہ کہ آپ سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ پچھلی حکومت میں جب پاکستان میں ایل این جی متعارف کرائی گئی تو اسے پارلیمنٹ کے ایکٹ کے تحت گیس کے بجائے پیٹرولیم پراڈکٹ قرار دے دیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب اوگرا گیس کی قیمت کا تعین کرتا ہے تو وہ ایل این جی کو اس کو شامل نہیں کر سکتا۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا میں 1100 کی منگوا کر ڈیڑھ سو کی بیچوں، میں کیا کروں اس کا گردشی قرضے پیدا کروں۔ ان دو چیزوں کے بعد پچھلی حکومت نے قانوناً میرے پاس کوئی راستہ نہیں چھوڑا۔ ان دو چیزوں کو تناظر میں رکھیں اور ہم سے کہا جاتا ہے کہ آپ نے نئے معاہدے پر دستخط کیوں نہیں کیے، قیمتیں تو بہت گر گئی تھیں، آپ پچھلی حکومت کو مہنگی ایل این جی لانے پر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو آپ نے کیا کیا؟۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی نے کہا کہ اس حکومت نے کہا کہ ہم ٹرمینل مزید لگوانا چاہتے ہیں، ہم بطور حکومت یہ رسک نہیں لیں گے کہ روزانہ 5لاکھ ڈالر دیتے رہیں اور وہ کتنا استعمال ہو رہا ہے اس کا رسک بھی ہم اٹھائیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک اور سوال یہ کیا جاتا ہے کہ کراچی الیکٹرک کو گرمیوں میں تیل نہیں ملا کیا اس کو ایل این جی دے دی گئی، یہ کیوں ہوا؟، آپ سب لوگوں کو معلوم ہے کہ کراچی الیکٹرک کا کئی سالوں سے اس حکومت سے پہلے سے مسئلہ چل رہا ہے، ان کے بجلی اور گیس کے کنٹریکٹ بہت عرصے سے ایکسپائر ہو چکے ہیں اور کراچی کو بھی ہر ممکن حد تک سپورٹ دے رہے ہیں کیونکہ یہاں کے باسی بھی پاکستان کے شہری ہیں۔ معاون خصوصی نے دعوی کیا کہ اگلے دو تین سالوں میں ہم پائپ لائن کے شعبے میں اہم اصلاحات لا رہے ہیں اور کابینہ نے پیٹرولیم ڈویژن کو یہی ہدایت دی ہے کہ ایک مکمل اصلاحات پروگرام لے کر آئیں۔

ای پیپر-دی نیشن