عورتوں ، بچوں کو فروخت کیا جاتا، ملتان ، حیدرآباد ، لودھراں انسانی سمگلنگ کے گڑھ : سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) 2015ء میں ڈیرہ غازی خان سے اغوا ہونے والی عاصمہ مجید کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت کے موقع پر مغوی کے والدین کے وکیل کی طرف سے مؤقف اپنایا گیا ہے کہ اگر عدالت صرف خط لکھنے کو پولیس کی کارکردگی قرار دے رہی ہے تو پھر افسوس ہے۔ معاملہ کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ ریکارڈ بتا رہا ہے کہ پولیس لڑکی کی بازیابی کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔ اغوا کے وقت لڑکی کی عمر 15 سال تھی اب بھی اسکی عمر زیادہ نہیں ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے مغوی لڑکی کے والدین کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ تفتیش کے ماہر ہیں۔ جس پر مغوی کے والدین کے وکیل نے کہا کہ وہ تفتیش کے ماہر تو نہیں لیکن کیس میں کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی۔ لڑکی چھ سال سے اغوا ہے اور آج تک بازیاب نہیں ہو سکی۔ جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے گمشدہ خاتون کے اہلخانہ کے وکیل کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ جو باتیں آپ کر رہے ہیں عدالت پولیس کو دسمبر 2019 کی سماعت پر کہہ چکی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں عورتوں اور بچوں کو بیچا جاتا ہے۔ رپورٹس کے مطابق ملتان، حیدرآباد اور لودھراں انسانی سمگلنگ کے گڑھ ہیں۔ جسٹس مظاہر نقوی نے ایک موقع پر کہا کہ ملتان اور جنوبی پنجاب سے لڑکیاں حیدر آباد لے جا کر بیچی جاتی ہیں۔ حیدر آباد میں پتہ کرائیں لڑکی وہاں کسی ڈیرے پر ہو گی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے اس موقع پر ایڈیشنل آئی جی کو ہدایت کی کہ ان گینگز کا پتہ لگائیں جو یہ کام کر رہے ہیں۔ ایڈیشنل آئی جی جنوبی پنجاب نے اس موقع پر خاتون کی بازیابی کیلئے دو ماہ کی مہلت طلب کی۔ عدالت عظمیٰ نے گمشدہ خاتون کی تلاش کیلئے چاروں صوبوں کو تعاون کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت دو ماہ تک کے لئے ملتوی کر دی ہے۔