صارفین کی قوت خرید کے باعث حکومت ایل این جی پرچیز نہیں کر رہی: وزارت توانائی
اسلام آباد (خصوصی نمائندہ) وفاقی وزارت توانائی وپٹرولیم ڈویژن کے ترجمان نے میڈیا میں مخصوص اعداد و شمار کی بنیاد پر ایل این جی کی درآمد سے متعلق گردش کرنے والی بعض رپورٹس کے حوالے سے وضاحت جاری کی ہے جس میں بعض سنگین سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ حکومت سے سوال کیا جاتا ہے کہ آیا وہ زیادہ ایل این جی کیوں نہیں خرید رہی؟ اس بارے میں سوالات کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ ایل این جی آئینی طورپر گیس نہیں ہے لہذا جب حکومت کو معلوم ہو جائے گا کہ ایل این جی گیس کی اصل قیمت ادا کرنے والے خریدار موجود ہیں تب ہی وہ اسے خریدے گی بصورت دیگر بغیر تصدیق کئے خریداری سے ایل این جی خسارہ بڑھنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ معاہدوں کے مطابق ایل این جی کی خرید لو اور دو کی بنیاد پر ہوتی ہے اس لئے کارگو کی خریداری کے وقت موقع پر ہی رقم ادا کر دی جاتی ہے اور محتاط اندازے کے مطابق ہر کارگو کی قیمت 25 ملین ڈالر کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ حکومت مالی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے 800 ایم ایم سی ایف ڈی پہلے سے کئے گئے معاہدوں کے باوجود اضافی گیس خرید رہی ہے کیونکہ اس دوران صارفین کی طلب اور قوت خرید کو بھی مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔ اس عمل میں توانائی سی این جی اور صنعتی شعبوں کی طلب کا حصہ بھی شمار ہوتا ہے۔ صارفین کی جانب سے قوت خرید کی اہلیت کو نظرانداز کرتے ہوئے گیس خریدنا سراسر لاپرواہی کے زمرے میں آتا ہے۔ ترجمان نے کہاکہ گزشتہ چار برسوں میں حکومت پاکستان نے غیراستعمال شدہ صلاحیت کی مد میں اربوں روپے ادا کئے۔ اگر موجودہ حکومت بھی اسی طرز کے مزید ٹرمینلز بنانا شروع کر دے تو اس پر خطیر رقم ادا کرنا پڑے گی اور یہ عوامی پیسہ ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔ موجودہ حکومت نے اس شعبے میں سرمایہ کاری کے لئے دروازے کھول دیئے۔ دو کمپنیوں نے خواہش ظاہر کی ہے توقع ہے کہ اگلے دو ماہ میں ایک کمپنی کام شروع کر دے گی۔