• news

10بلین ٹری منصوبے کا نوٹس، اتنے درخت لگ گئے تو تقدیر بدلجائیگی، مجسٹریٹس سے تصدیق کرائینگے: چیف جسٹس

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے دس بلین ٹری سونامی منصوبے کا نوٹس لیتے ہوئے تمام ریکارڈ اور تفصیلی رپورٹس طلب کرلی ہیں۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ جہاں درخت لگوائے گئے ہیں وہاں اپنے مجسٹریٹس کو بھجوا کر رپورٹس منگوائیں گے اور تصدیق کرائیں گے۔ سندھ کے افسر جیل بھی جائیں گے اور نوکری سے بھی۔ اسلام آباد انتظامیہ نے سارے درخت بنی گالہ میں ہی لگائے ہونگے۔ سپریم کورٹ نے کلر کہار کے علاقے میں جنگلات کو کاٹ کر تعمیرات کرنے پر پابندی لگا دی۔ سپریم کورٹ میں دریائوں نہروں کے کناروں پر شجرکاری سے متعلق کیس کی سماعت کی جس کے آغاز پر عدالت نے سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی کو فوری طلب کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی دس بلین ٹری منصوبہ کا سارا ریکارڈ لیکر آئے۔ عدالت کے طلب کرنے پر وفاقی ٍسیکرٹری موسمیاتی تبدیلی عدالت میں پیش ہوئیں اور بتایا کہ منصوبے کے پہلے سال تو حکومت نے نرسریوں میں پودوں کی افزائش کی۔ تاہم ایک سال میں 430 ملین درخت لگائے جا چکے۔ منصوبے کیلئے آدھے فنڈز وفاقی حکومت اور آدھے فنڈز صوبوں کو خود لگانا ہوتے ہیں۔ مانیٹرنگ کیلئے سیٹلائٹ فوٹیج کے ساتھ ساتھ تیسری پارٹی سے چیکنگ بھی جاری ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا آپ نے 430 ملین درخت لگے دیکھے ہیں؟۔ سیکرٹری نے موقف اپنایا تمام درخت لگے ہوئے دیکھنا ممکن نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا دس ارب درخت لگنا ناقابل یقین بات ہے۔ اتنے درخت لگ گئے تو ملک کی قسمت بدل جائے گی۔ وفاقی سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی نے کہا بلین ٹری منصوبے پر عمل صوبائی حکومتیں کر رہی ہیں۔ جس پر چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا صوبے آپکی بات سنتے ہی کہاں ہیں۔ بلوچستان میں تو بلین ٹری منصوبے کا وجود ہی نہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا اسلام آباد پشاور موٹروے پر درختوں کا وجود ہی نہیں۔ بلین ٹری منصوبے کے حوالے سے دعوے کے شواہد بھی دیں۔ کیا بلین ٹری منصوبہ کی تصدیق بھی کروائی جا رہی ہے؟۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا ملک کی کسی ہائی وے کے اطراف درخت موجود نہیں، کلر کہار کے اطراف پہاڑوں سے درخت کاٹ دیے گئے ہیں، کلر کہار میں درخت کاٹ کر ہاؤسنگ سوسائیٹیز بنائی جا رہی ہیں۔ سندھ حکومت کی طرف سے رپورٹ نہ آنے پر سرزنش کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ سیکرٹری جنگلات کو چہرہ دیکھنے کے لیے نہیں بلایا، رپورٹ کدھر ہے۔ جس پر سیکرٹری آبپاشی سندھ نے موقف اپنایا کہ رپورٹ بائنڈنگ ہو رہی ہے، آج فائنل ہو جائے گی، دریا اور نہروں کے کنارے 3 لاکھ 83 ہزار درخت لگائے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس جگہ لگائیں ہیں درخت، دکھائیں تصویریں؟۔ سندھ حکومت کے معاملات سمجھ سے بالاتر ہیں۔ سندھ واحد صوبہ ہے جس کے معاملات کچھ اور ہی طرح چلتے ہیں۔ سندھ سے جتنے بھی افسر آئے ہیں کسی کو ٹی اے ڈی اے نہیں ملے گا۔ چیف جسٹس نے کہا عدالتی حکم عدولی پر سندھ کے افسران کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کرینگے۔ سندھ کے افسر جیل بھی جائیں گے اور نوکری سے بھی۔ توہین عدالت کا نوٹس ملا تو ساری جمع پونجی ختم ہوجائے گی۔ سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کو جھیلوں اور شاہراہوں کے اطراف میں بھی درخت لگانے کا حکم بھی دیا۔ سیکرٹری سندھ نے موقف اپنایا کہ ہمیں منصوبے کیلئے فنڈز نہیں دیئے گئے تاہم سندھ میں پچاس لاکھ درخت لگائے گئے ہیں۔ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا سندھ میں جو بھی فنڈز جاتے ہیں چوس لئے جاتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاسندھ میں جتنا بھی فنڈ چلا جائے لگتا کچھ نہیں۔ سندھ میں انسانوں کا جینا مشکل ہے تو درخت کیسے رہیں گے۔ سندھ میں ڈاکو پکڑنے کے نام پر لاڑکانہ کے قریب جنگل کاٹا گیا۔ سندھ پولیس ڈاکو تو کیا ایک تتلی بھی نہیں پکڑ سکی۔ پورے پورے جنگل صاف ہوگئے لیکن پکڑا کوئی نہیں گیا۔ نہروں اور دریاؤں کے اطراف درخت عدالت نے لگوائے، بلین ٹری سونامی منصوبے کے درخت کہاں گئے؟۔ اسلام آباد انتظامیہ پر برہمی کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کہا اسلام آباد انتظامیہ بڑی مغرور ہے۔ اسلام آباد میں پانچ لاکھ درخت کہاں لگائے ہیں؟۔ آپ نے سارے درخت بنی گالہ میں ہی لگائے ہونگے۔ اسلام آباد انتظامیہ جس قدر نااہل ہے، اسلام آباد میں درخت کٹ رہے۔ کشمیر ہائی وے پر ٹیڑھے میڑھے درخت لگے ہیں، جس سے درخت خوبصورتی کے بجائے بدصورتی پیدا کر رہے ہیں۔ سی ڈی اے کے ڈائریکٹر ماحولیات نے موقف اپنایا کہ درخت لگانے کیلئے دو سال سے کوئی فنڈ نہیں ملا۔ حکام اسلام آباد انتظامیہ نے موقف اپنایا کہ تمام تفصیلات عدالت میں جمع کرائیں گے۔ سپریم کورٹ نے کے پی کے سیکرٹری ماحولیات کی بھی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو تو سیدھا جیل بھیج دینا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہاکمراٹ میں درخت کٹتے ہوئے خود دیکھ کر آیا ہوں۔ کمراٹ میں ہزاروں درخت کاٹے جا رہے ہیں۔ جس پر سیکریٹری ماحولیات کے پی کے نے موقف اپنایا کہ مقامی آبادی کو درجہ حرارت کم ہونے پر درخت کاٹنے کا کوٹہ دیا جاتا۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کسی کو درخت کاٹنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ناران کاغان کچرا بن چکا۔ جھیل کے اطراف کوئی درخت نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کے پی کے کا محکمہ ماحولیات چور اور آپ اسکے سربراہ ہیں۔ نتھیا گلی میں درخت کٹ رہے اور پشاور میں تو موجود ہی نہیں۔ کیا آپکو یہ سب نظر نہیں آتا۔ آپکو کس قسم کا ہیلی کاپٹر چاہیے کہ آپ جنگلات کا دورہ کر سکیں۔ کے پی کے حکومت کے وکیل نے کہا نہروں، دریاؤں کے اطراف 78 لاکھ درخت لگائے ہیں۔ سیکریٹری ایریگیشن پنجاب بھی عدالت میں پیش ہوئے اور موقف اپنایا کہ پنجاب میں کینال کے 25 ہزار مائل رقبہ پر درخت لگائے ہیں۔ کینال اور ریور سائیڈ پر شیشم، کیکر اور برگر کے درخت لگائے، کینال کے علاقے میں تین لاکھ درخت لگائے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا25 ہزار مائل کینال روڈ کے ایریا میں 3 لاکھ درخت کچھ بھی نہیں۔ جس پر سیکرٹری ایریگیشن نے کہا ایک لاکھ 41 ہزار ایکڑ جنگل ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا اسلام آباد سے کراچی تک جائیں دریا کنارے تو کوئی جنگل نہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کاغذوں میں آدھا پاکستان جنگل ہے اصل میں جنگل نظر نہیں آتا۔ چیف جسٹس نے کہا عدالتی حکم پر عمل کیوں نہیں کیا۔ عدالت حکم کی عدم تعمیل پر سندھ کی طرح آپ دونوں کیخلاف بھی توہین عدالت کی کارروائی کریں گے۔ سیکرٹری ایری گیشن اور سیکرٹری جنگلات دونوں کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیتے ہیں۔ درخت قوم کی دولت اور اثاثہ ہیں۔ مالم جبہ سمیت جہاں چلے جائیں کٹائی ہی کٹائی ہو رہی۔ ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان نے موقف اپنایا کہ بلوچستان میں اس سیزن میں درخت نہیں لگتے۔ جس پر چیف جسٹس پاکستا ن نے کہا آپ نے درخت لگانے بھی نہیں ہیں، کوئٹہ شہر کے مردار پہاڑوں کو درخت لگا کر جاندار کب بنائیں گے۔ ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان نے کہا کوئٹہ شہر کے پہاڑوں پر درخت نہیں لگ سکتے۔ چیف جسٹس نے کہا کیا کوئٹہ شہر کے پہاڑ چٹانیں ہیں، ماضی میں کھبی کوئٹہ شہر کے پہاڑوں پر درخت ہوا کرتے تھے۔ عدالت نے قرار دیا کہ آگاہ کیا جائے منصوبے پر اب تک کتنے فنڈز خرچ ہوئے، فنڈز خرچ ہونے کا جواز بھی بمعہ ریکارڈ پیش کیا جائے، کتنے درخت کہاں لگے تمام تفصیلات تصاویر سمیت فراہم کرنے کا بھی حکم دیا گیا۔ عدالت نے وزارت موسمیاتی تبدیلی سے سٹیلائٹ تصاویر بھی منگوا لیں۔ عدالت نے کلرکہار کے اطراف پہاڑوں پر تمام کمرشل سرگرمیاں روکنے کا حکم دیتے ہوئے قرار دیا کہ پنجاب حکومت تمام کمرشل سرگرمیاں ختم کروا کر پہاڑوں پر درخت لگائے۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر سیکرٹری پلاننگ، چاروں صوبائی سیکرٹری جنگلات کو طلب کر لیا۔ مزید سماعت ایک ماہ بعد ہوگی۔

ای پیپر-دی نیشن