نواز شریف اشتہاری قرار، ضمانتی 9دسمبر کو اسلام آباد ہائیکورٹ طلب
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز میں نواز شریف کو اشتہاری قرار دے دیا۔ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ڈویژن بنچ نے وفاق اور نیب پراسیکیوٹرز کے دلائل سننے کے بعد شواہد کی روشنی میں سابق وزیراعظم کو اشتہاری قرار دینے کا مختصر فیصلہ سنادیا اور کیسز میں سابق وزیراعظم کے ضمانتیوں سخی عباسی اور اس کے دوبیٹوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر9 دسمبر کو طلب کرلیا اور نواز شریف کی ضمانت کیلئے دائر ضمانتی مچلکوں کی ضبطگی کیلئے بھی کارروائی شروع کردی گئی۔ یاد رہے کہ سابق وزیراعظم کو عدالت نے سرینڈرکر کے عدالت پیش ہونے کیلئے بذریعہ اشتہار طلب کر رکھا تھا۔ دفتر خارجہ کے ڈائریکٹر یورپ مبشر خان کا بیان قلمبندکرنے کیلئے ڈپٹی اٹارنی جنرل طیب شاہ نے گواہ سے سچ بات کرنے کا حلف لیا۔ مبشر خان نے کہاکہ 19اکتوبر2020ء کو عدالتی احکامات ملے اسی روز ہائی کمیشن کو ایکشن لینے کیلئے لیٹر لکھا، نواز شریف کے رہائش کے باہر اشتہار چسپاں کرنے سمیت دیگر اقدامات کا کہا گیا۔21اکتوبر کو اٹارنی جنرل سے تصدیق شدہ کاپی ملی جس پر اسی روز لندن ہائی کمیشن کو بھی خط لکھ دیا گیا۔ وہاں کے مقامی قانون کی کاپی بھی ہمراہ ہے،3 نومبر کو وہاں سے جواب آیا، 9نومبر کو لندن سے فیکس پر عمل درآمد کا میسج آیا، 20نومبر کو رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی تھی۔ 30نومبرکو مو رائل میل کی رسیدیں وصول ہوئیں، عدالت کے استفسار پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اشتہار انگریزی میں شائع ہوئے اور دونوں کیسز کے الگ الگ اشتہار تھے۔ مبشر خان نے کہاکہ میں نے اس عدالت سے جاری نواز شریف کے اشتہارات وصول کیے اور اشتہارات دفتر خارجہ سے لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کو بھیجے، اس موقع پر نوازشریف کے اشتہار تعمیل سے متعلق دستاویزات عدالت کے سامنے پیش کی گئیں۔ عدالت نے استفسارکیاکہ رجسٹرار آفس نے جو ٹیکسٹ آپ کو دیا تھا کیا یہ وہی ہے، ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہاکہ جی جو اشتہار ہے اس کا وہی ٹیکسٹ ہے جو رجسٹرار آفس نے ہمیں بھیجا تھا۔ اس موقع پر وزارت خارجہ کے ڈائریکڑ یورپ مبشر خان نے رائل میل کے ذریعے نوازشریف کا اشتہارات کی ترسیل کی تصدیق شدہ رسید بھی پیش کرتے ہوئے بتایاکہ رائل میل کے ذریعے اشتہارات پہنچائے گئے۔ رسید پر تاریخ اور دن بھی موجود ہے، نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کے لیے اشتہار کی برطانیہ میں تشہیر سے متعلق دستاویزات پر اضافی دستاویزات اور رائل میل کے ذریعے تعمیل کرائے شواہد عدالت میں پیش کی گئیں، جن کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا، جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ جو دستاویزات آپ نے دیں کیا وہ ایک کیس کی ہیں یا الگ الگ ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ دونوں اشتہار الگ الگ تھے،جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ ایسی ہی ایک الگ کاپی دے دیں،جس کے بعدگواہ اعجاز احمد اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایف آئی اے لاہور نے حلف کے بعد بیان قلمبندکرایا اور بتایاکہ ڈائریکٹر ایف آئی اے لاہور کو 23 اکتوبر کو لیٹر ملا جس کی روشنی میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر طارق مسعود کے ہمراہ ماڈل ٹاؤن لاہور گئے اور عمل درآمد کرایا۔ اشتہار آسان زبان میں تھانواز شریف کی رہائش گاہ کے باہر چسپاں کیا، اور اسی روز شریف فارمز جاتی امراء لاہور بھی جاکر اشتہار چسپاں کرائے اور اعلانات بھی کرائے،23اکتوبر کو رپورٹ جمع کرائی جس پر طارق مسعود اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے دستخط بھی موجودہیں اور موقع پر بنائی گئی 10تصاویر بھی رپورٹ کے ہمراہ ہیں۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل طیب شاہ نے کہاکہ دونوں ایف آئی اے افسر آئے تھے اور ایک ہی رپورٹ ہے بیان بھی ایک ہی ہے۔ جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ بھروانہ صاحب آپ کیا کہتے ہیں کیس کو کیسے آگے بڑھایا جائے۔ جس پر جہانزیب بھروانہ نے کہاکہ اپیلوں میں سابق جج ارشد ملک کے خلاف متفرق درخواست دائر ہے۔ جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیاکہ اپیلوں پر کیا کیا جانا چاہیے، نیب پراسیکیوشن نے نواز شریف کی العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنسز اپیلیں مسترد کرنے کی استدعاکرتے ہوئے کہاکہ نواز شریف کی اپیلیں میرٹ پر مسترد کر دی جانی چاہئیں۔ جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ آج نہیں لیکن آئندہ سماعت پر عدالت کی معاونت کریں، آئندہ سماعت پر عدالتی نظیریں پیش کریں کہ اشتہاری ملزم کی اپیل کا کیا کیا جانا چاہیے، جہانزیب بھروانہ نے کہاکہ نیب آرڈیننس کی شق 31-A کے تحت عدالت کے سامنے سرینڈر نہ کرنے پر نواز شریف کو الگ سے سزا ہو سکتی ہے، جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ اگر اس میں سزا ہو سکتی ہے تو اپیلوں میں بھی میرٹ پر فیصلہ ہو سکتا ہے،آئندہ ہفتے مریم نواز اور کپٹن ر صفدر کی اپیلوں پر بھی سماعت ہے، کیا نواز شریف کی اپیلوں کو بھی انہی اپیلوں کے ساتھ سماعت کیلئے مقرر کر دیں، جہانزیب بھروانہ نے کہاکہ مریم نواز اور کپٹن صفدر کی اپیلوں کا میرٹ بالکل مختلف ہے، جسٹس محسن اخترکیانی نے کہاکہ ایک ہی کیس میں فیصلہ ہے دونوں میں کیس تو پورا کھلے گا، اس عدالت نے ارشد ملک کا کنڈکٹ بھی تو دیکھنا ہے۔ جہانزیب بھروانہ نے کہاکہ نواز شریف نے پانچ گواہ پیش کرنے کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔ دوسری درخواست ناصر بٹ نے دائر کر رکھی ہے وہ بھی اشتہاری ملزم ہے۔ جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ ہم شواہد کو مدنظر رکھتے ہوئے آرڈر جاری کر دینگے۔ بھروانہ صاحب ہمیں آگے کیا کرنا چاہیے، دو اپیلیں نواز شریف کی ہیں اور دو نیب کی نواز شریف کے خلاف اپیلیں ہیں۔ سزا بڑھانے کی نیب کی اپیل پر نوٹس جاری ہے جبکہ فلیگ شپ پر نوٹس نہیں ہوا، کیا العزیزیہ ریفرنس میں نوازشریف کی اپیل کو الگ رکھا جائے یا اسی کے ساتھ؟ نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ العزیزیہ ریفرنس اپیل مکمل طور پر الگ ہے اس کو الگ ہی دیکھنا چاہیے، جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ آپ اب اکیلے ہیں دوسری سائیڈ تو ہے ہی نہیں آپ نے عدالت کی معاونت کرنی ہے، کیا آئندہ سماعت پر آپ متفرق درخواستوں پر دلائل دیں گے۔ عدالت نے کہاکہ ارشد ملک کا کنڈکٹ تو دیکھنا یہ اس کے اثرات ڈائریکٹ فیصلے پر ہیں۔ عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے کہاکہ آپ پر اب زیادہ ذمہ داری ہے کیونکہ دوسری طرف سے کوئی نہیں، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ پرویز مشرف کیس میں یہی عدالت ایک فیصلہ دے چکی ہے۔ عدالت نے کہاکہ جج ارشد ملک نے بھی ایک بیان حلفی دیا تھی جسے ہم نے انتظامی اختیارات میں ریکارڈ کا حصہ بنا دیا تھا، جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ آئندہ سماعت پر عدالت کو بتائیں کہ پہلے متفرق درخواست کو دیکھنا ہے یا اپیلوں کو، جسٹس محسن اخترکیانی نے کہاکہ ہائیکورٹ کی خصوصی عدالت پر سپروائزری تو موجود ہے، جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ ملزم اگر مفرور ہو بھی گیا تو عدالت نے قانون تو دیکھنا ہے، عدالت نے کہاکہ اشتہاری قرار دینے سے متعلق مختصر تحریری حکمنامہ آج جاری کریں گے۔ عدالت نے مذکورہ بالا اقدامات کے ساتھ نواز شریف کے ضمانتیوں کو نوٹس جاری کردیے اور کیسز کو مریم نواز کی اپیلوں کے ساتھ مقرر کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 9دسمبر تک ملتوی کردی ہے۔