زراعت کے شعبہ میں ڈرون ٹیکنالوجی کے استعمال کیلئے کوئی پالیسی موجود نہیں
اسلام آباد (چوہدری شاہد اجمل) پاکستان زراعت کے شعبہ میں ڈرون ٹیکنالوجی کے استعمال کے حوالے سے قانون سازی میں خطے کے ممالک میں سب سے پیچھے ہے۔ ڈرون کے استعمال سے کاشتکاروں کا سپرے اور فصلوں کی میپنگ کا خرچ پچاس فیصد سے بھی کم ہو گا۔ زراعت کے شعبے میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے ماہر عظیم خان نیازی کہنا ہے کہ گنا، مکئی، کپاس جیسی اونچے قد کی فصلوں اور باغات پر سپرے کے لیے ڈرون سے بہتر کوئی دوسری ٹیکنالوجی نہیں ہے۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان میں زراعت کے شعبہ میں ڈرون ٹیکنالوجی کے استعمال کے لئے کوئی پالیسی نہ ہو نے کی وجہ سے کاشتکار اس سے مستفید نہیں ہو سکتے ہیں ،دنیا بھر میں زراعت کے شعبے میں ڈرون کا استعمال کیا جاتا ہے ،سول ایوی ایشن اتھارٹی کی طرف سے ایک پالیسی ڈرافٹ بنا کر سٹیک ہولڈر ز کو بھجوایا جا چکا ہے لیکن ابھی تک اس کو حتمی شکل میں تیار نہیںکیا جا سکا ہے ،پنجاب حکومت کی جانب سے دو سال قبل زراعت کے شعبے میں ڈرون کے استعمال کے لیے ایس او پیز بنائے گئے تھے لیکن بعد میں یہ وفاقی معاملہ ہو نے کی وجہ سے اس پر عملدرآمد روک دیا گیا تھا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کے لیے پالیسی بنانی ہو گی جن میں ڈرون کی رجسٹریشن اور پائلٹس کی ٹریننگ کے حوالے سے معاملات طے کیے جائیں گے اس میں سیکیورٹی کے معاملات بھی شامل ہیں ،ذرائع کے مطابق بھارت میں ڈرون ٹیکنالوجی کے استعمال پر قانون سازی ہو چکی ہے اب اس کے ذریعے سپرے کر نے کے حوالے سے بھی قانون سازی ہو رہی ہے ،جاپان میں نوے کی دہائی سے ہی اس حوالے سے قانون سازی کی جا چکی ہے کوریا،فلپائن،تھائی لینڈ اور ملائیشیا میں زراعت کے شعبے میں دوران کا استعمال عام ہے چین میں بڑے پیمانے پر زرعی شعبے میں ڈرون کا استعما ل کیا جا تا ہے جہاں پر زراعت کے لیے پچاس ہزار سے زائد ڈرون استعمال ہو رہے ہیں چین مین نجی کمپنیوں کے پاس 5،5ہزار ڈرون ہیں جو چھوٹے کاشتکاروں کو کرائے پر ڈرون کی سروسز فراہم کر تے ہیں ۔