• news

ہر بھارتی سازش ناکام بنائینگے، سی پیک پہلے سے زیادہ ترقی کریگا: ترجمان پاک فوج

اسلام آباد (سٹاف رپورٹر) ڈی جی آئی ایس پی آر  میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ پاکستان کی جانب سے بھارتی ریاستی دہشت گردی سے متعلق پیش کیے گئے ڈوزیئر کو عالمی برادری بہت سنجیدگی دیکھ رہی ہے۔ بھارت کے پاس دہشت گرد ہیں، وہ سی پیک پر کام کرنے والی چینی افرادی قوت اور مقامی لیبر کو نشانہ بناتا ہے، مگر ان خطرات کے خلاف ہم نے مکمل تیاری کر رکھی ہے۔  بھارتی سی پیک کی ٹائم لائن مکمل نہ ہونے دینے کا فیصلہ کرچکے، وہ سمجھتے ہیں رکاوٹیں ڈالنے سے منصوبہ رک جائے گا، بھارت سی پیک کو ترقی کرتے نہیں دیکھنا چاہتا۔  ہمارے چینی پارٹنرز سی پیک منصوبے کی سکیورٹی کے انتظامات سے مکمل مطمئن ہیں، سی پیک کو نقصان پہنچانے کی ہر بھارتی سازش کو ناکام بنائیں گے۔ انشاء اللہ سی پیک ہر روز پہلے سے زیادہ ترقی کرے گا۔ انگریزی زبان  کے انٹرنیٹ جریدے گلوبل ویلیج  سپیس  کو دیے گئے ایک  تفصیلی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ  5 اگست 2019ء کو جب بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 ختم کرکے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت واپس لی گئی تو اس کے بعد سے پریس میں بھارت کو بہت منفی ردعمل ملا۔ حکومت پاکستان  نے  بہت اچھی طرح  اس معاملہ  کو  مختلف عالمی فارمز پر اٹھایا گیا۔  پاکستان کے ڈوزئیر  میں  وہ تمام باتیں شامل ہیں جو پاکستان طویل عرصہ سے کہتا چلا آ رہا ہے۔ یہ  سب  صداقت تھی۔ بھارتی ریاستی معاونت سے پاکستان میں کی جانے والی دہشت گردی کے تمام ثبوت پیش کیے گئے جبکہ بھارتی کوششوں کے باوجود عالمی برادری کی جانب سے اس ڈوزیئر کو بہت سنجیدگی سے لیا گیا اور وہ اس پر بات کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا  میرے خیال میں  عالمی سطح پر اس ڈوزیئر کے مواد پر کی جانے والی بحث ایک بڑی پیش رفت ہے اور ہم اسے آگے لیکر جائیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس ڈویزیئر کے پیش کیے جانے کے بعد دفتر خارجہ  نے اسے سلامتی کونسل کے پانچ مستقل  رکن ملکوں کے سفراء  کے سامنے پیش کیا جبکہ اسے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو بھی پیش کیا گیا۔ مزید یہ ہے اب او آئی  سی نے بھی مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے ایک سخت بیان دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اسے ہر ممکنہ فورم پر لے کر جائیں گے اور اس سلسلے میں بہت سی کوششیں کی گئی ہیں۔ سی پیک سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سی پیک خطے کے لیے گیم چینجر ہے اور یہ پورے خطے کو جوڑنے کی پیشکش کرتا ہے اور اس سے پاکستان پورے خطے کے لیے رابطے کا مرکز ہوگا۔ جبکہ اس منصوبے میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ سب کو جوڑ کر اس خطے میں خوشحالی لائے گا۔ پاکستان کے لیے یہ بنیادی طور پر ایک اقتصادی منصوبہ ہے جبھی اس کا نام چین پاکستان اقتصادی راہداری ہے۔ سی پیک کو بھارت سے لاحق خطرات سے متعلق بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں سکیورٹی خطرات کا سامنا ہے اور اس کے اطراف بہت زیادہ دہشت گردی کی  سرگرمیاں ہورہی ہیں جبکہ یہ عجیب اعتراضات بھی اٹھائے جارہے ہیں کہ  سی پیک  کہاں سے شروع ہوگا اور کہاں ختم ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ لہٰذا اس منصوبے اور اس کے مختلف مراحل کے اطراف سکیورٹی کے خطرات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھ رہے ہیں اور کہیں نہ کہیں بھارتیوں نے فیصلہ کیا کہ ایک ٹائم لائن ہے جس کے بعد اس منصوبے کا رخ بدل جائے گا اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس منصوبے پر پیش رفت میں جتنا ممکن ہو کمی لائیں تاکہ یہ ٹائم لائن کو عبور نہ کرسکے۔ ان سے سوال کیا گیا کہ کیا  آپ یہ کہہ رہے کہ بھارتی خطے کی خوشحالی کے خلاف ہیں اور وہ اس وجہ سے سی پیک کو نقصان پہنچا رہے ہیں تو اس کے جواب میں بابر افتخار کا کہنا تھا کہ کیونکہ وہ اس منصوبے میں پیش رفت کے خواہاں نہیں ہیں تو اس وجہ سے وہ یہاں یہ سب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ڈوزیئر میں افغانستان میں دہشت گرد کیمپوں سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہماری افغان قیادت سے بات چیت ہوتی رہتی ہے اور ہمارا پورا ایک میکانزم ہے لیکن ہم ہمیشہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ افغان حکومت کے استعداد کار کے مسائل ہیں اور اس وجہ سے ہم کبھی براہ راست افغان حکومت پر ان کی سرزمین سے ہونے والے واقعے کا ذمہ دار نہیں ٹھہراتے، تاہم ہم ان سے معلومات کا تبادلہ کرتے رہتے ہیں اور یہ معمول کی بات ہے اور اسی طرح جو چیز ڈوزیئر میں ہیں وہ بھی ان سے شیئر کی گئی ہے۔ بابر افتخار کا کہنا تھا کہ ہم نے سی پیک کو محفوظ بنانے کے لیے  سیکیورٹی کے لیے 2 ڈویژن بنائے ہیں اس کے علاوہ ہم نے مختلف علاقوں جہاں سے یہ منصوبہ گزر رہا ہے 8 سے 9 رجمنٹس کو تعینات کیا ہوا ہے جبکہ اسی کے ساتھ ساتھ پیراملٹری دستے بھی تعینات ہیں اور ہم اس منصوبے کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں اور ہمارے چینی شراکت دار بھی سکیورٹی اقدامات سے مطمئن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ جب سی پیک کو ہدف بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو اصل میں یہ پاکستان کی بین الاقوامی تصویر کو ہدف بناتے ہیں، اس منصوبے پر حملے کے لیے جو دہشت گرد استعمال ہورہے وہ مسلسل اس منصوبے میں شامل چینی افرادی قوت  اور اس  منصوبے پر کام کرنے والے مقامی مزدوروں کو نشانہ بناتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان منصوبے کے خلاف مختلف اقسام کے سیکیورٹی خطرات ہیں لیکن اللہ کے کرم سے ہم نے اقدامات اٹھائے ہیں یہ اس منصوبے کو نقصان پہنچانے کے قابل نہیں ہیں اور ہم اپنے اقدامات میں مزید بہتری کر رہے ہیں۔ ایل او سی پر بھارتی اشتعال انگریزی اور گرینڈ ڈیزائن سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس ڈیزائن کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت کے اندر کیا ہورہا ہے۔ میں اس پر بات نہیں کروں گا کہ وہاں کیا ہورہا ہے کیونکہ ساری دنیا جانتی ہے۔ تاہم جہاں تک بھارت کے زیر تسلط کشمیر کی بات ہے تو بھارت مسلسل آزادی کی جدوجہد کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کررہا ہے اور اس سسلے میں سیز فائر کی خلاف ورزیوں میں  شدت آرہی ہے۔ انہوں نے کہا  کہ 2019 اور 2020 میں بھارت کی جانب سے سب سے زیادہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کی گئی اور ان دو برسوں میں سب سے زیادہ اموات بھی ہوئی ہوں گی۔ بھارت آزادی کی جدوجہد کو دہشت گردی سے جوڑنا چاہتا ہے اور دہشت گردی کو پاکستان سے نام نہاد دراندازی سے جوڑنے کی کوشش کرنا چاہتا ہے۔ ہم میڈیا، سفارتکاروں کو لائن آف کنٹرول کے دورے پر لے کر گئے جہاں انہوں نے خود دیکھا کہ لائن آف کنٹرول سے کسی قسم کی دراندازی نہیں کی جاسکتی کیونکہ وہاں  بہت زیادہ فوج تعینات کی ہوئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں 9 لاکھ بھارتی فوجی تعینات ہیں اور ایل او سی پر بھی ان کی تعیناتی کو دیکھا جاسکتا ہے جبکہ پاکستان کی مکمل فوج 6 لاکھ ہے۔ انہوں نے کہا  کہ مقبوضہ کشمیر کی مقامی سیاسی قیادت بھی یہ کہہ چکی ہے کہ اگر سب کچھ ٹھیک ہے تو وہ دنیا کا سب سے زیادہ عسکری علاقہ کیوں ہے؟۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ بھارت ان جنگ بندی کی خلاف ورزی سے یہ حاصل کرنا چاہتا ہے کہ وہ دنیا کی توجہ پاکستان کی طرف کرنا چاہتا ہے اور وہ یہ دعویٰ کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں جو ہورہا ہے وہ پاکستان کی دراندازی اور سرحد کے اس پار سے آئے دہشت گردوں کی وجہ سے ہورہا ہے جبکہ حقیقت میں یہ بالکل جھوٹ ہے۔ پاکستان اور بھارت میں اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین گروہ موجود ہیں اور یہ پاکستان میں ہر جگہ جاتے ہیں اور آخری مرتبہ جب سفرا کے وفد کو لائن آف کنٹرول لے کر گیا تھا تو میں نے انہیں بتایا کہ اس وقت وہ جس جگہ موجود ہیں اس سے متعلق بھارتی فوج کے سربراہ نے کہا کہ یہاں لانچنگ پیڈ اور 250 کے قریب لوگ موجود ہیں جو بھارت میں دراندازی کرنا چاہتے ہیں، یہ بالکل ایک پروپیگنڈا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت جانتا ہے کہ چاہے وہ ہم پر فائر کریں یا ہم انہیں جواب دیں دونوں طرف کشمیریوں کو ہی نقصان پہنچے گا اور وہ پاک فوج اور لائن آف کنٹرول لائن کے   ساتھ رہنے والی آبادی کے درمیان دراڑ کھینچنا چاہتے ہیں۔ نگروٹا واقعے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ بھارت تناؤ کو بڑھانے کے لیے ہمیشہ کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈتا ہے اور فالس فلیگ آپریشن اس کا معمول ہے۔ اس پر خاتون اینکر کی جانب سے جب پوچھا گیا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ نگروٹا واقعہ فالس فلیگ تھا تو اس پر ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ انہیں اس میں کیا ثبوت ملا؟۔ کیا انہوں نے دنیا کے ساتھ اسے شیئر کیا؟۔ انہوں نے کہا کہ دوسری طرف پاکستان نے جب موجودہ حکومت آئی تو کہا کہ آپ ایک قدم بڑھائیں، ہم  دو بڑھائیں گے اور ہم نے ہمیشہ حالات معمول پر لانے کی کوشش کی ہے اور ہمیں خطے میں حالات کو معمول پر رکھنے کی ضرورت ہے۔ بابر افتخار کا کہنا تھا کہ سب کو معلوم ہے پاکستان اور بھارت کی استعداد کیا ہے اور یہ ایک پیٹرن ہے کہ دنیا میں جب بھی کچھ بڑا ایونٹ آنے والا ہوتا ہے تو کچھ نہ کچھ ہوجاتا ہے جو پاکستان کو دہشت گردی سے جوڑ دیتا ہے۔ سوشل میڈیا پر پاکستان اور پاک فوج سے متعلق غلط معلومات اور جعلی خبروں، خاص طور پر حالیہ دنوں کراچی میں خانہ جنگی سے متعلق ٹوئٹر ٹرینڈ کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ یہ ایک بڑا چیلنج ہے کہ سوشل میڈیا پر جو کچھ ہوتا ہے تاہم اس سے نمٹنے کا بہتر حل شفافیت ہے، اس سے نمٹنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ معتبر معلومات کو آگے پہنچائیں اور ہم یہی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم نے سوشل میڈیا کے ان اکاؤنٹس کا پتا لگانے کی کوشش کی تو اس میں سے زیادہ تر بھارتی اکاؤنٹس تھے، بدقسمتی سے یہ ففتھ جنریشن وار فیئر کا بڑا حصہ ہے اور اس معاملے میں پاکستان کو ففتھ جنریشن وار فیئر کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ففتھ جنریشن وار فیئر سے متعلق انہوں نے مزید کہا کہ جب ہم اس خطرے کی بات کرتے ہیں تو میری نظر میں آپ دو یا اس سے زیادہ بڑے خطرات پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے قومی طاقت کے تمام عناصر کا استعمال کرتے ہیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کرونا  وائرس  کے انسداد کیلئے میڈیا کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ میڈیا نے اربوں روپے  مالیت کی  آگاہی مہم مفت چلائی۔ ہم کرونا کی دوسری لہر کا بہتر طور پر مقابلہ کر رہے ہیں، اور اس حوالے سے فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز کو خاص طور پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ کرونا کی دوسری لہر میں ہم سب کو زیادہ احتیاط اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کی ضرورت ہے۔ 'گلوبل ویلیج سپیس' کو انٹرویو کے دوران انہوں نے  کہا آئی ایس پی آر کے این سی او سی کا انفارمیشن آرم کی حیثیت سے ہم نے دیکھا، اور کرونا سے نمٹنے میں پہلے دن سے پاک فوج ہر حکومتی کوشش کا حصہ ہے۔ این سی او سی میں فوجی اور سویلین مربوط نمائندگی ہے۔ یہ تجربہ بہت اچھا رہا۔ سمارٹ لاک ڈاؤن یقینی بنانے کے لیے فوجی دستے تعینات کیے گئے۔ جبکہ وبا سے نمٹنے کی حکمت عملی اور فیصلوں میں فوج کے آئی ٹی سسٹمز کا فائدہ اٹھایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ کرونا کی پہلی لہر میں جو خامیاں سامنے آئیں، انہیں ہنگامی بنیادوں میں دور کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے۔

ای پیپر-دی نیشن