شہید ناموس رسالت ؐ کی للکار
گزشتہ ہفتے لاہور شہرکے تاریخی ’’منٹو پارک‘‘ کی وسعتیں تنگ دامانی کا گلہ کرتے دیکھی گئیں ، تو مجھے تعجب نہیں ہوا۔کیونکہ یہ معاملہ ہی عجیب تھا۔ بقول شخصے
’’عشق دے معاملے اولے‘‘
یہ عشق کا معجزہ تھا اور محبت رسولؐ کی طاقت تھی جو ہر اہل ایمان کو کشاں کشاں مینار پاکستان کی طرف کھینچے چلی جا رہی تھی۔ میں نے اپنی آنکھوں سے اپنے کئی جاننے والے۔ دیگر مسالک کے احباب کو حسرت اور شوق کے جذبات سے سرشار شریک اجتماع دیکھا۔وہاں پاکستان کے تمام مسالک تمام زبانیں بولنے والے تمام رنگ عقیدت کے رنگ میں سرشار نظر آئے۔ معلوم ہوا عشق رسول ؐ کی نسبت انسان کو لازوال بھی بنا دیتی ہے اور سب کا محبوب بھی۔کیونکہ یہ الوہی نظام کا حصہ اور قدرت کے اپنے فیصلوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ہمارے یا کسی میڈیا کی بیساکھیوں کے سہارے نہ تو کوئی عاشق بن سکتا ہے اور نہ دلوں میں اس کی محبت سرایت کر سکتی ہے۔
ہم نے دیکھا لاہور کی وسیع وعریض تجارتی شاہراہیں کاروبار حیات سے نہ صرف بے نیاز بلکہ سوگوار بھی تھیں۔ آج معمول سے ہٹ کر ان مصروف شاہراہوں کی رونقیں اس مرد درویش کے جذبوں کی قدرتی مہک سے عطر بیز تھیں۔آج کے مناظر دیکھ کر یہ بھی معلوم ہوا کہ۔اللہ تعالیٰ کو اپنے محبوبؐ سے محبت کرنے والوں اور ناموس رسالت پر جان چھڑکنے والوں کے سچے جذبوں کی کتنی قدر ہے؟ اس قادر مطلق کے ہاں اخلاص و وفا کی قیمت ہی اور ہے۔ دنیوی جاہ وحشمت اس کے ہاں پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتی بقول اقبال…؎
تیری حیات میں ہے اگر شرر تو خیال فقرو غنا نہ کر
کہ جہاں میں نان شہیر پر ہے مدار قوت حیدری
ایک ایسا شخص جو سونے کا چمچ لیکر پیدا ہوا اور نہ اس کے پاس دولت وثروت تھی۔اس کے پاس تورہنے کو اپنا گھر بھی نہ تھا۔مسجد سے ملحق چھوٹا سا حجرہ جہاں وہ کئی سالوں سے اپنے بیوی بچوں سمیت عزیمت کی زندگی گذار رہا تھا۔ مدرسے کا ایک محدود آمدنی والا عام سا استاد۔ نہ اس کے پاس گدی تھی۔ نہ کوئی مشہور آستانہ۔ نہ کسی سیاسی خاندان کا چشم وچراغ تھا اورنہ کسی عالم و شیخ کا صاحبزادہ والا شان۔نہ اسے تنظیم سازی کا تجربہ اور ڈھنگ تھا اور نہ وہ زندگی میں کسی مذہبی یا سیاسی جماعت کا رکن یا عہدہ دار رہا تھا۔وہ تو خالی ہاتھ تھا۔ہاں مگر اس کا دل محبت رسولؐ سے سیراب تھا۔وہ اس سرمدی سرمائے سے مالامال تھا۔اس کی بے ساختہ زبان اس کے بے لوث جذبوں کی ترجمان تھی۔اسے جدید نسل پر دھاک بٹھانے کیلئے نہ انگریزی زبان کا سہارا لینا آتا تھا اور نہ وہ ڈپلومیسی کے’’عصری فن‘‘ سے اگاہ تھا۔
قلندر جزو دو حرفے لا الہ کچھ بھی نہیں رکھتا
فقیہہ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا
محبت رسول تو اللہ پاک کی دین ہے۔ یہ تو نور الٰہی کا وہ حصہ ہے جسے اللہ پاک نے خالص اہل ایمان کے دلوں میں بھر دیا ہے۔ یہ اللہ پاک کا روحانی رزق ہے جو ازلی فیصلوں پر تقسیم ہوتا ہے۔ہاں اس کیلئے قلب منور کی ضرورت ہوتی ہے۔جس کا نصاب شریعت مطہرہ ہے۔
محبت کیلئے کچھ خاص دل مخصوص ہوتے ہیں
یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پہ گایا نہیں جاتا آج اسی الوہی قدسی رزق کی تلاش اور اسکے اظہار کا دن تھا۔ آج ہر دل اس ’’شعلہ عشق‘‘ کی محبت سے لبریز نظر آتا تھا اور ہر زباں پر اس کے خلوص اور بے باکی کا تذکرہ نمایاں تھا۔ میں نے علماء ومشائخ کے بڑے بڑے جنازے دیکھے۔ بڑے بڑے دینی اور سیاسی اجتماعات کا آنکھوں دیکھا حال قلمبند بھی کیا مگر یہاں کا جوش اورجذبہ بالکل مختلف نظر آیا جس کے بیان اور اظہار کے لیے میرے الفاظ یقینا ناکافی اور بے بس ہیں۔
ہمارے کئی دوست۔ جنازے میں شامل ہونے والوں کی تعداد گن رہے ہیں۔کچھ دانشور پاکستانی قوم کے ثوابی پن اور جنازوں میں شرکت کی روش پر شاکی ہیں۔ دوستان محترم! بات کثرت یا قلت کی نہیں۔سچ کے اظہار اور اسکی قدر دانی کی ہے۔ مجھے ایام طالبعلمی میں انکے ساتھ کچھ ماہ گزارنے کا موقع ملا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خادم حسین رضوی نے خدمت دین اورناموس رسالتؐ کے پرچم کو پوری قوت اور خلوص کے ساتھ تھاما۔ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خادم ہونے کا حق ادا کیا۔اللہ پاک نے انکے نام اور کام کو ان کے مخالف اور موافق کو ان کا مداح بنا دیا۔کہتے ہیں۔ حق وہ ہوتا ہے جس کا اعتراف دشمن بھی کرے۔ علامہ رضوی کی جہادی گن گرج نے تو بھارت میں صف ماتم بچھارکھی ہے۔ اس ’’معذور شخص‘‘ کی بے باک شخصیت کی دھاک ترقی یافتہ مغرب کی منافقت پر بھی بیٹھ چکی ہے۔
جسمانی معذوری کے باوجود جس چابک دستی سے انہوں نے ناموس رسالتؐ پر پہرا دیا اور ہمت و استقامت سے چوکیداری کا فریضہ سرانجام دیا۔ کسی سے ادا نہ ہوسکا۔ یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے۔ چار سال پہلے ان کو یاتو کوئی جانتا نہ تھا۔ یا پھر چھوٹی سی مسجد کے امام کے طور پر لوگ انہیں بھی ایک مولوی۔ سمجھتے تھے اور بس۔ میسر روایتی دینی علم کے ساتھ انہیں شاعر مشرق وارث عشق رومیؒ قلندر لاہوری علامہ اقبال اور دور فتن میں عشق رسولؐ اور غیرت ایمانی کی دوسری بڑی علامت ہمہ گیر عالمی شخصیت امام آحمد رضا محدث بریلی رحمؒ اللّٰہ علیہ کے افکار و اشعار سے سرشاری مقدر میں ملی تھی۔ اس سرشاری سے لیس عشق وجنون کے گھوڑے پر سوار ہوکر میدان میں آئے تو۔ بڑے بڑے شاہسواروں کو پیچھے چھوڑ دیا۔
انکے سرعت رفتار کی وجہ جو میری سمجھ میں آئی یہ ہے کہ میں نے انکے کسی جلسے اجتماع یا جلوس میں ان کا ذاتی نعرہ بلند ہوتے نہیں سنا انہیں اپنی ذات سے کوئی سروکار تھا ہی نہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ فنا فی الرسول تھے۔انہیں تاجدار ختم نبوت کی محبت کا ایسا سرمدی نشہ۔چڑھا ہوا تھا کہ ہمیشہ حضور ختمی مرتبت کے نعروں میں مدہوشی کو ہی اپنے قلب وباطن کی خوراک بنا رکھا۔ (جاری)