• news
  • image

اختلافات اپنی جگہ‘ سیاست میں شائستگی بہرصورت ملحوظ خاطر رکھی جائے

وزیراعظم عمران خان کی نوازشریف اور آصف زرداری پر عذاب عبرت جیسے سخت الفاظ سے تنقید 
 وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ نواز شریف اور آصف زرداری پر اللہ کا عذاب ہمارے لئے عبرت ہے۔ میں نواز شریف اور آصف زرداری کو 40 سال سے جانتا ہوں، اپنی زندگی میں دیکھا کہ ان کی کیا حالت ہوئی، کبھی جیل جا رہے ہیں، کبھی باہر آ رہے ہیں، کبھی جھوٹ بول کر لندن، کبھی سعودی عرب جا رہے ہیں، سب چوری کا پیسہ بچانے کے لئے ہے،  پوری پی ڈی ایم مہم چلا رہی ہے۔ ساری بیماریاں سٹریس سے ہوتی ہیں اور اگر آپ نے سٹریس دیکھنا تھا تو سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار کا انٹرویو دیکھ لیتے۔ اس کی شکل دیکھیں۔ اگر وہ کہہ رہا ہے کہ مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے تو بھی اسے دل کا مسئلہ ہو جانا تھا۔ جھوٹ پر جھوٹ بولا جا رہا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ لیڈر کا صادق اور امین ہونا ضروری ہے۔
عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف کرپشن فری سوسائٹی اور کڑے احتساب کا ایجنڈا لے کر اقتدار میں آئی۔ اس پارٹی نے عوام کو انکی زندگیاں آسان کرنے کی بھی امید دلائی۔ اقتدار میں آکر ہرپارٹی کی کوشش ہوتی ہے کہ اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلے۔ تحریک انصاف اقتدار میں آکر کرپشن کے خاتمے اور کڑے احتساب کے اپنے پروگرام پر سمجھوتہ کرنے کیلئے تیار نظر نہیں آتی۔ اس نے روایتی طور پر اپوزیشن کی طرف نہ صرف تعاون کا ہاتھ نہیں بڑھایا بلکہ غیرروایتی طور پر اپوزیشن کی طرف سے مل جل کر چلنے کی پیشکش کو بھی مسترد کر دیا۔ جس سے اپوزیشن کا برگشتہ ہونا فطری امر تھا جس کے نتیجے میں پی ڈی ایم کی صورت میں حکومت گرانے کیلئے ایک اتحاد تشکیل پا چکا ہے۔ حکومت کی طرف سے اس اتحاد کو کرپٹ لوگوں کا ٹولہ قرار دیا جاتا ہے۔ حکومتی حلقوں کے بقول یہ لوگ اپنی کرپشن بچانے اور این آر او لینے کیلئے اکٹھے ہوئے ہیں۔ حکومتی پارٹی جس طرح الزامات اپوزیشن کی قیادت پر لگاتی ہے‘ وہی الزامات اپوزیشن کی طرف سے لوٹا دیئے جاتے ہیں۔ اپوزیشن بھی خیر نہیں کرتی اسکی طرف سے بھی الزام اور دشنام کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور جواب میں ویسے ہی سب کچھ سننا بھی پڑتا ہے۔ پاکستان میں سیاسی کشیدگی کی ایک افسوسناک تاریخ ہے۔ ہماری سیاست میں دوستیاں اور دشمنیاں دائمی نہیں ہوتی ہیں۔ جہاں غیرفطری اتحاد بھی بنتے رہے‘ دائیں اور بائیں بازو کی سیاست گڈمڈ ہوتی رہی ہے۔ 
پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کبھی سیاسی اختلافات کو ذاتیات اور دشمنی تک لے گئی تھیں۔ ایک دوسرے کو کیا کچھ نہ کہا گیا۔ دونوں پارٹیوں کی لیڈر شپ کا بڑا حوصلہ ہے کہ آج ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے تحریک انصاف کی حکومت کو گرانے پر زور لگا رہی ہیں۔ یہ لوگ کیسے ایک دوسرے سے آنکھیں ملاتے ہونگے۔ سیاسی اختلافات کے دوران ان پارٹیوں نے گنجائش رکھی ہوتی تو آج جس طرح ماضی کے الزامات کا دفاع کرنے سے کتراتے اور لاجواب ہوجاتے ہیں‘ ایسی صورت حال کا انہیں سامنا نہ کرنا پڑتا۔ کل تک جس طرح مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی ایک دوسرے کے مقابل سیاسی اختلافات کو ذاتیات اور دشمنی تک لے گئی تھیں‘ آج وہ دونوں متحد ہیں اور ایسی ہی صورتحال انکے اور تحریک انصاف کے مابین بنی ہوئی ہے۔ سیاسی اختلافات ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی کی حدوں کو کراس کر چکے ہیں۔ بھونڈے انداز میں بلیم گیم جاری ہے اور اس میں زیادہ ذمہ دار مقتدر پارٹی ہے۔ اسکی طرف سے بلند حوصلگی کا مظاہرہ ہونا چاہیے۔ اینٹ کا جواب اینٹ سے دینا تو سمجھ میں آتا ہے مگر اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جاتا ہے۔ 
ماضی بعید میں جانے کی ضرورت نہیں‘ کل ہی کی بات ہے تحریک انصاف اے پی ڈی ایم  کا حصہ تھی جس کے سربراہ میاں نوازشریف تھے اور پھر میاں نوازشریف پاناما کیس کی زد میں آئے تو پیپلزپارٹی عدالت میں تحریک انصاف کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی تھی۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کئی معاملات پر ایک صفحے پر دیکھی گئیں۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی حکومت کے مابین بھی اختلافات ہیں مگر وہ سیاسی حدود میں رہ کر اظہار کے پیرائے میں آتے ہیں۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے پی کے میں 2018ء کے انتخابات سے قبل اتحادی تھے کل پھر اتحاد کی ضرورت پڑتی ہے تو یہ مرحلہ خوش اسلوبی سے طے ہو سکتا ہے۔ ہاتھ ملاتے ہوئے اور آنکھیں چار کرتے ہوئے دونوں کو شرمندگی نہیں ہوگی۔ 
کرپشن کے خاتمے اور کڑے احتساب کیلئے آج حالات سازگار ہیں‘ حکومت اس حوالے سے پرعزم ہے۔ اداروں کو فری ہینڈ دیا گیا ہے۔ عدلیہ آزاد ہے۔ پاک فوج آئینی کردار ادا کرنے پر کاربند ہے۔ کڑے احتساب کے شکنجے میں آئے عناصر نے ہاتھ پائوں تو مارنے ہی ہیں مگر کہیں بھی ان کیلئے کوئی نرم گوشہ پیدا نہیں ہو رہا۔ تاہم احتساب شفاف اور غیرجانبدار ہونا بھی ضروری ہے جو خود اداروں کی ساکھ کو مزید قابل اعتبار بنائے گا۔ 
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہیے کہ احتساب متعلقہ اداروں کا کام ہے جن کو فری ہینڈ دے دیا گیا ہے تو حکومت کی طرف سے اشتعال انگیز  بیانات کی ضرورت نہیں ہے ۔ وزیراعظم نے اپوزیشن کی قیادت کے بارے میں جو کچھ کہا  ہے وہ چاہے درست ہو مگریہ وزیراعظم کے منصب کے شایان شان نہیں ہے۔ کیا اس کا جواب نہیں آئیگا؟ اس سے یقیناً سیاسی کشیدگی مزید بڑھے گی جو پہلے بھی کم نہیں ہے۔ اپوزیشن کو بھی اپنے رویے پر غور کرنا ہوگا۔ وہ احتساب کے اداروں کو جواب دینے کے بجائے انہیں متنازعہ بنانے پرتلی ہوئی ہے۔ کرونا سے صورتحال گھمبیر ہو چکی ہے مگر وہ حکومت کیخلاف جلسوں پر مصر ہے۔ وہ کرونا کی حقیقت کو تسلیم کرلے اور حکومت کیخلاف مبارزت کسی اور موقع کیلئے رکھ لے۔ اس حوالے سے بھی حکومت کو یکساں پالیسی بنانی چاہئے ۔ پی ڈی ایم کے جلسے رکوانے پر زور دیا جاتا ہے۔ رکاوٹیں بھی کھڑی کی جارہی ہیں‘ میڈیا میں سختی سے ہدف تنقید بنایا جاتا ہے مگر جماعت اسلامی کھلے عام جلسے کررہی ہے۔ 
سیاسی اختلافات اپنی جگہ مگر کسی بھی صورت شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے۔ اس حوالے سے حکومت کی حوصلہ دکھانے کی زیادہ ذمہ داری ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے مابین آئین اور قانون کے مطابق تعلقات کار برقرار رہنے چاہئیں۔ 

epaper

ای پیپر-دی نیشن