جمعۃ المبارک‘ 18؍ ربیع الثانی ‘ 1442ھ‘ 4؍ دسمبر 2020ء
15 سال بعد ڈاکٹرز کا پیشہ ختم ہونا شروع ہو جائے گا۔ فواد چودھری
یہ پیشنگوئی کرتے ہوئے وزیر سائنس و ٹیکنالوجی شاید یہ بھول گئے تھے کہ یہ تو صاف صاف ڈاکٹروں کیلئے بیروزگار ہونے کی چتاونی ہے۔ انہیں بھول گیا کہ ان کی پارٹی نے ملک میں ا یک کروڑ نوکریاں دینے اوربیروزگاری ختم کرنے کے نعرے لگا کر الیکشن جیتا تھا۔ مگر کیا ہوا 3 برس ہونے والے ہیں نوکریاں دینا تو دور کی بات اُلٹا پہلے سے برسر روزگار لوگوں کی نوکریاں ختم کر کے انہیں بیروزگار کیا جا رہا ہے۔ اس پر کسی تاسف کی بجائے الٹا زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے۔ انہی وزیر موصوف نے فرمایا کہ بے روزگاروں کو سرکاری نوکریاں فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری نہیں تو پھر کیا غیر ممالک ہمارے نوجوانوں کو نوکریاں دینگے۔ خان صاحب کہتے تھے۔ بیرون ملک سے آ کر لوگ ملک میں نوکریاںکریں گے۔ جبکہ حقیقت میں خود ملک کے لاکھوں بے روز گار بیرون ملک نوکری ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔ اب 15 سال بعد ڈاکٹروں کو بھی نوکریاں ختم ہونے کا سندیسہ سنایا جا رہا ہے۔ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ کیا سرکاری ادارے اور محکمے ختم کئے جا رہے ہیں۔ ہسپتال بھی نجکاری کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر ملک سے غربت تو نہیں البتہ غریبوں کا خاتمہ ضرور ہو گا۔ میڈیکل کے طلبہ کو بائیوٹیک کا شعبہ اپنانے کی بات درست بھی ہو مگر ساری دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بائیوٹیک شعبہ کی ترقی کے باوجود ڈاکٹر ہر جگہ چھائے ہوئے ہیں۔ کام کر رہے ہیں صرف پاکستانی ڈاکٹروں کو ہی پریشان کیوں کیا جا رہا ہے۔
٭٭٭٭٭
لاہور جلسے کے لیے پی ڈی ایم کو کنوینر نہیں مل رہا۔ فردوس عاشق اعوان
ایسا ہی کچھ خیال حکومتی ترجمانوں کا ملتان جلسے کے حوالے سے بھی تھا بلکہ اس سے بھی دو ہاتھ آگے وہاں تو سرکاری مشینری اور ادارے جلسہ گاہ پر قابض ہو چکے تھے۔ سڑکوں کو بند کیا جا چکا تھا۔ اپوزیشن والے اس وقت یاد دلاتے پھر رہے تھے کہ وزیر اعظم نے کہا تھا اپوزیشن جلسے کرے یا دھرنے دے کنٹینر اور کھانا ہم دیں گے۔ مگر ملتان میں تو سڑکیں بند کرنے کے لیے کنٹینرز رکھے گئے اور کھانے کے ہوٹل تک بند تھے۔ اب لاہور کا جلسہ زیادہ دور نہیں 13 دسمبر کو ہے۔ 10 روز میں دیکھنا ہے حکومت ہتھ ہولا رکھتی ہے یا کھچ کے رکھتی ہے۔ بظاہر کہا تو یہ جا رہا ہے کہ حکومت جلسہ کرنے سے پی ڈی ایم کو نہیں روکے گی ۔ سو اب فردوس عاشق اعوان کی طرف سے پی ڈی ایم کو کنوینر نہ ملنے والی بات کا جواب پی ایم ڈی والے ہی دے سکتے ہیں۔ سیاسی نقاد تو ملتان جلسے کو پیپلز پارٹی کا شو کہہ کر اب لاہور جلسے کا سارا زور مسلم لیگ (ن) پر ڈال رہے ہیں کہ وہ کیا کارکردگی دکھاتی ہے۔ اگر شور شرابا ہلہ گلہ اور ہنگامہ آرائی ہی کامیابی اور ناکامی کی دلیل ہے تو پھر لاہور والوں کو بھی اس جلسے کے لیے ذرا مصالحہ تیز رکھنا ہو گا۔ پھیکا پکوان ہمارے سیاسی دسترخوان پر زیادہ مقبول نہیں ہوتا۔ لاہوریوں کی رنگ بازی ویسے ہی چسکے دار ہوتی ہے۔ مگر کیا کریں یہ عوامی انداز مسلم لیگ (ن) کی سیاسی اشرافیہ میں زیادہ مقبول نہیں۔ وہ گھروں میں بیٹھ کر سیاست کرنا پسند کرتے ہیں۔
٭٭٭٭
شاہد آفریدی کا افغان کھلاڑیوں کو بدکلامی سے پرہیز کا مشورہ
افغانوں کیلئے ہم نے کیا کچھ نہیں کیا ۔ پورے ملک کی سلامتی دائو پر لگا دی۔ اپنا پیٹ کاٹ کر 40 لاکھ افغانوں کی میزبانی کی۔ ہر مشکل گھڑی میں ہم افغانوں کے ساتھ کھڑے رہے کہ یہ ہمارے مسلمان بھائی اور پڑوسی ہیں۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ اقوام متحدہ میں جس واحد ملک نے پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی وہ افغانستان ہی تھا۔ بہرکیف آج افغانستان میں جو لوگ کرکٹ، ہاکی، فٹبال کھیل رہے ہیں یہ اسی پاکستان کی مہربانی ہے کہ ان یہاں کو تربیت ملی۔ اسکے باوجود خدا جانے کیوں ان لوگوں کے دلوں میں پاکستان اور پاکستانیوں سے متعلق کینہ اور زہر بھرا رہتا ہے۔ جس کا وہ اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ افغانستان پر غیرملکی غاصب طاقتوں کے کٹھ پتلی حکمران ہوں یا طالبان یہ سب افغان باشندے ہیں۔ انکی آڑ میں پاکستان کو رگیدنا قرینِ انصاف نہیں ہے۔ یاد رہے کہ افغانستان کی ساری معیشت و تجارت انحصار واہگہ بارڈر اور کراچی بندرگاہ پر ہے۔ گزشتہ دنوں لنکا پریمیئر لیگ کے میچ میں پاکستانی فاسٹ بائولر عامر نے ایک میچ میں افغان بائولر کی گیند پر چوکا مارا تو افغان بائولر آپے سے باہر ہوگیا اور بدتمیزی پر اترآیا۔ ہمارا عامر بھی ذرا تیز مزاج ہے‘ فوراً گرم ہوگیا۔ کھلاڑیوں نے ان دونوں کا میچ پڑنے سے پہلے درمیان میں آکر بیچ بچائو کرا دیا۔ خاص طور پر شاہد آفریدی نے سختی سے افغان بائولر کو تنبیہ کی۔ پھر مزہ تو اس کے بعد آیا جب اس بائولر کی اگلی گیند پر گرم مزاج عامر نے زبردست چھکا مار کر اپنا غصہ اتارا اور افغان بائولر منہ دیکھتا رہ گیا۔ اب لالہ ضروری کام کی وجہ سے لنکا پریمیر سے واپس وطن آ رہے ہیں انہوں نے افغان کھلاڑیوں کو درست مشورہ دیا ہے کہ وہ آرام سے کھیلیں اور بدکلامی نہ کریں۔ عامر نے بھی اس بات کو سو فیصد درست کہا ہے۔
٭٭٭٭٭
برطانوی طلبہ کی ریموٹ کنٹرول گاڑیاں چاند پر دوڑیں گی
چاند پر ریموٹ کنٹرول گاڑیوں کی ریسں 2021ء میں ہوگی۔ برطانوی سکولوں کے طلبہ کی انتھک کوششوں کی بدولت چاند پر کھلونا گاڑیوں کی ریس ممکن ہو سکی ہے۔ لگتا ہے یہ شروعات ہے۔ آگے آگے دیکھتے ہیں چاند پر اور کیا کیا کھیل کھیلے جائیں گے۔ کون سے گل کھلائے جائیں گے۔ کیا وقت تھا جب چاند کو دیکھ کر لوگ…؎
میں جو شاعر کبھی ہوتا تیرا سہرا کہتا
چاند کو چاند نہ کہتا تیرا چہرہ کہتا
جیسی شاعری کرتے تھے اور چاند کے حسن کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے تھے‘ لیکن اس دور میں بھی ساحر جیسے باغی روایت شکن شاعر بھی گزرے ہیں جو چاند کی خوبصورتی سے رتی بھر بھی متاثر نہیں ہوا اور کھلے عام کہتا پھرتا تھا؎
میں تجھے چاند کہوں یہ مجھے منظور نہیں
چاند کے پاس بھی کیا رکھا ہے داغوں کے سوا
اب تو سائنس کا دور ہے۔ لوگ چاند کی سیر پر جانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ ایڈوانس بکنگ ہو رہی ہے۔ وہاں کیا معلوم جلدہی ہوٹل بھی کھل جائیں۔ برطانوی طلبہ نے اسی آنے والے وقت کے تناظر میں یہ ریموٹ کنٹرول گاڑیاں خلائی جہاز کے ذریعے چاند پر بھیج کر وہاں ان کی ریس منعقد کرنی ہے۔ یہ کوئی جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے تھری ڈی ریس نہیں‘ اصل ریس ہوگی۔ گویا اب بچے کھیلن کو چاند مانگنے کی بجائے وہاں جا کر کھیلنا پسند کرنے لگے ہیں۔