• news
  • image

یہ کونسا کھیل کھیلا جا رہا ہے؟

نوٹ: بہت دکھ اور افسوس سے لکھ رہا ہوں کہ17نومبر کو میری اہلیہ محترمہ بقضائے الٰہی وفات پا گئی ہیں ۔تمام قارئین سے استدعا کہ انکے حق میں دعائے مغفرت فرمائیں۔شکریہ!
ویسے تو ہم کئی لحاظ سے دنیا کی بڑی دلچسپ قوم ہیں لیکن ہماری سب سے اہم خوبی ہمارا قومی رویہ ہے۔ ہم شاید دنیا کی وہ واحد قوم ہیں جو قومی مفادات پر ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔بہت سے لو گ تو ہمیں ایک قوم مانتے ہی نہیں بلکہ ہمیں ایک ہجوم سے تشبیہ دیتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو پیدا تو پاکستان کی مٹی سے ہوئے۔ اسی سرزمین کے رزق سے پل کر جوان ہوئے۔عام مفادات اٹھائے لیکن تعریفیں بھارت کی کرتے ہیں۔ اگر انہیں موقعہ ملے تو شاید بھارت میں رہنے کو ترجیح دیں۔ پاکستان کا رزق کھا کر بھی انہیں پاکستان میں دنیا کی تمام تر برائیاں نظر آتی ہے۔ یہ لوگ ہندو کی غلامی کیلئے مرے جا رہے ہیں۔ مودی سے بار بار بھارتی شہریت کی اپیلیں کرتے ہیں۔کسی اور قوم میں اتنے بے حس اور وطن کے دشمن نظر نہیں آتے جتنے اس پاک وطن میں ہیں ۔افسوس تواس بات کا ہے کہ ہماری عوام بھی قومی مفادات کے تحفظ سے لاپرواہ ہو چکی ہے۔ آج ہم جس بھی آفس میں چلے جائیں ہر طرف کرپشن ہی کرپشن نظر آتی ہے۔ بقول چوہدری فواد کچھ لوگ دو کلو گوشت کیلئے پوری گائے ذبح کرنا درست سمجھتے ہیں۔ہماری کرپشن آج اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ملک قرضے میں ڈوب چکا ہے۔ ترقی ہوتی کہیں نظر نہیں آتی۔مہنگائی غریبوں کی پہنچ سے بہت اوپر جا چکی ہے۔پڑھے لکھے نوجوان سڑکوں پر دھکے کھا رہے ہیں اور سب سے بڑھ کر ملکی سلامتی دائو پر لگ چکی ہے۔ قوم جانتی ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے قومی رویے اور کرپشن کا نتیجہ ہے لیکن پھر بھی کوئی شخص یہ عادات چھوڑنے کو تیار نہیں۔ اللہ ہی ہم پر رحم فرمائے۔آمین!
جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے اسکے اپنے بیٹے اسکے خلاف سازشیں کرنے اور اسے نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔اسوقت یہ کام ہمارے کچھ سیاستدان کررہے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ اقتدار سے مستفید ہونیوالا شخص جناب میاں محمد نواز شریف اور انکے رشتہ دار اور اہل خانہ ہیں۔ جنہوں نے نہ صرف ہر قسم کے فوائد اٹھائے بلکہ پاکستان سے پیسہ لوٹ کر باہر جائیدادیں بنائیں اور بنک بھرے۔یہی الزام پی پی قیادت پر بھی ہے ۔ان دونوں پارٹیوں کے راہنمائوں نے کئی دفعہ اقتدار کے مزے اٹھائے۔میاں صاحب تو تین دفعہ وزیر اعظم بنے لیکن پھر بھی اقتدار کی ہوس پوری نہیں ہوئی۔ اب یہ دونوں پارٹیاں مغل شہنشاہوں کی طرح اپنی اولادوں کو اقتدار بخشنا چاہتی ہیں۔ مجھے کوئی شک نہیں کہ یہ لوگ کامیاب ہو بھی جائینگے جس سے لوٹ مار نئے سرے سے شروع ہوگی۔
بہر حال یہ وقت بتائے گا کہ نئے راہنما کتنے ایماندار اور کتنے محب وطن ثابت ہونگے۔فی الحال تو دونوں اپنے اپنے بزرگوں کی کرپشن بچانے میں مصروف ہیں۔سب سے پہلا الزام تو جناب میاں صاحب پر یہ ہے کہ میاں صاحب تین بار پاکستان کے وزیر اعظم رہے ہیں اور بطور ایک لیڈر اور سابق وزیر اعظم قومی رازوں کی حفاظت ہر قیمت پر انکا فرض ہے۔انہیں زیب نہیں دیتا کہ وہ ایسے موضوعات پر بات کریںجن سے دشمن فائدہ اٹھائے ۔مگر افسوس کہ انہوں نے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد کچھ اہم قومی راز کھلے عام بتا دئیے جو کہ بہت غلط بات ہے ۔قومی راز بتا کر وہ کس سے بدلہ لے رہے تھے۔پھر جناب نے شیخ مجیب الرحمن کی لیڈر شپ کی بڑی تعریف کی۔قوم کو ڈرانے کی کوشش کی کہ وہ بھی ایسا کام کر سکتے ہیں جس سے بقیہ ماندہ پاکستان بھی خدانخواستہ مشرقی پاکستان کی طرح ٹوٹ سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے وہ اپنی جگہ درست ہوں لیکن محب وطن لوگوں نے میاں صاحب کا ایسا رویہ پسند نہیں کیا۔کسی بھی شخص کا کردار اسوقت سامنے آتا ہے جب وہ مشکلات سے گزررہا ہو ۔میاں صاحب جیل تو گئے لیکن جس انداز میں بیماری کا ڈرامہ رچا کر باہر گئے وہ بھی ایک صاحب کردار لیڈر کو زیب نہیں دیتا ۔پھر سب سے اہم بات کہ میاں صاحب باہر جا کر کن لوگوں سے ملتے رہے اس سے متعلق مختلف افواہیں ہیں۔ کچھ لوگ تو یہاں تک بھی کہتے ہیں کہ وہ بھارتی ’’ را ‘‘ اور اسرائیلی موساد کے کچھ اہم لوگوں سے ملے اور پھر انہوں نے انکے کہنے پر پاک آرمی کی کردار کشی کی۔
جمہوری تحریکیں ہر ملک میں چلتی ہیں لیکن لیڈرز اس بات کی احتیاط کرتے ہیں کہ قومی مفادات کو زک نہ پہنچے۔اب پاکستان میں سیاسی تحریک پی ڈی ایم کے نام  سے شروع کی گئی ہے اور لیڈرز اپنے دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں۔اس میں ماشا ء اللہ پاکستان کی گیارہ پارٹیاں شامل ہیں اور سب اپنے اپنے زخموں کا بدلہ لے رہے ہیں۔جناب بلاول بھٹو صاحب نے تو حکومت کے خاتمے کا اعلان بھی کردیا ہے۔جبکہ مولانا صاحب نے تو اعلان جنگ کیا ہے اور جنگ میں پیچھے ہٹنا گناہِ کبیرہ ہوگا۔پاکستان کی یہ تحریک اپنے آپ کو اتنا طاقتور سمجھتی ہے کہ جو کچھ منہ میں آتا ہے کہتی رہتی ہیں۔ یہاں بھی نام لئے بغیر سب سے بڑی تنقید فوج پر ہے۔مولانا صاحب تو فوج پر برستے رہتے ہیں۔معلوم نہیں یہ تحریک کامیاب ہوتی ہے یانہیں لیکن ایک دفعہ تو انہوں نے پورے ملک کو ہلا دیا ہے۔اس میں دو چیزیںبڑی اہم ہیںایک تو یہ کہ تقریروں میں کچھ لیڈرز کھلم کھلا پاکستان کی سلامتی پر حملہ کرتے ہیں جیسے پشاور اور کابل ایک ہی ملک کے دو شہر ہیں۔ آزاد بلوچستان اور آزاد پختونستان کے نعرے بھی لگائے گئے۔معلوم نہیں کہ ان لیڈروں کی قومی عزت اسوقت کہاں تھی اسکا مطلب تو صاف طور پر یہی ہوا کہ ذاتی مفادات کیلئے قومی سلامتی ان لوگوں کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتی۔پیپلز پارٹی ایک دفعہ پھر گھرائو جلائو کی سیاست پر آگئی ہے ۔ہر وہ الیکشن جس میں یہ کامیاب نہ ہوں ان کے خیال میں الیکشن چوری ہوا ہے ۔جلسے جلوس نکالنا تو ان لوگوں کا حق ہے لیکن جو حشر انہوں نے گلگت بلتستان میں کیا ہے وہ سراسر غلط ہے۔ سرکاری عمارات جلانا ،لوگوں کی کاریں جلانا قطعاً اچھی سیاست نہیں پھر یہی کام انہوں نے ملتان مین دکھایا۔ غیر قانونی ریلی نکالی اور رکاوٹیں توڑ ڈالیں۔اسکا مطلب تو یہ ہواہے کہ پیپلز پارٹی ہر صورت اقتدار میں آنا چاہتی ہے چاہے غنڈہ گردی سے ہی سہی۔ 

سکندر خان بلوچ

سکندر خان بلوچ

epaper

ای پیپر-دی نیشن