• news

بھارتی فوج کی زیرحراست 8ہزار نوجوان لاپتہ، بیشتر کو زبردستی اٹھایا گیا: تنظیم لواحقین

 سری نگر(کے پی آئی) مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کی حراست میں گزشتہ30 سال کے دوران  آٹھ ہزار کشمیری لاپتہ  ہو گئے ہیں۔ لاپتہ افراد کے لواحقین کی تنظیم(اے پی ڈی پی) کے مطابق لاپتہ ہونے والے آٹھ ہزار  افراد میں سے زیادہ تر نوجوان ہیں لیکن ان میں کم عمر نوجوان بھی شامل ہیں۔ اسی طرح دیگر شعبوں کے ہر عمر کے افراد بھی شامل ہیں۔لاپتہ افراد کے لواحقین کی تنظیم(اے پی ڈی پی)  کی سربراہ  پروینہ آہنگر نے مغربی نشریاتی ادارے  سے انٹرویو میں اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ  وہ جب تک زندہ ہیں، لاپتہ افراد کی تلاش کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گی ۔ کوئی خوف یا دبائو میرے سفر میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتا ہے۔ مغربی نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو  کے مطابق حالیہ برسوں کے دوران ہزاروں کشمیری لاپتہ ہوئے اور ان میں سے زیادہ تر کو بھارتی  فورسز اہلکار زبردستی اٹھا کر لے گئے۔ لاپتہ افراد کے لواحقین کی تنظیم(اے پی ڈی پی)  کی سربراہ  پروینہ آہنگر اپنے نوجوان بیٹے اور دیگر لاپتہ افراد کی جنگ بڑی بہادری سے لڑ رہی ہیں۔نوے کی دہائی کے اوائل تک پروینہ آہنگر بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی دیگر عورتوں کی طرح ایک عام سی ماں تھیں۔ پھر ایک دن بھارتی فورسز نے ان کے سب سے بڑے بیٹے جاوید کو گھر سے اٹھا لیا۔ وہ اس وقت ایک ہائی سکول کا طالب علم تھا اور پروینہ آج تک اپنے بیٹے کو دوبارہ نہیں دیکھ پائیں۔ جاوید آہنگر کا شمار ان ہزاروں کشمیری نوجوانوں میں ہوتا ہے، جنہیں سکیورٹی فورسز یا پھر نقاب پوش افراد نے اٹھایا اور پھر وہ دوبارہ کبھی اپنے گھروں میں قدم نہ رکھ سکے۔اب تک بیسیوں خاندان لاعلم ہیں کہ ان کے رشتہ دار کدھر گئے؟ بھارتی حکومت کا موقف ہے کہ یہ لاپتہ افراد سرحد عبور کرتے ہوئے پاکستان چلے گئے۔ لیکن کشمیری خاندان اس حکومتی الزام کی تردید کرتے ہیں اور آج تک اپنے بچھڑے ہوئے رشتہ داروں کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں۔پروینہ آہنگر بھی گزشتہ تیس برسوں سے اپنے بیٹے کی تلاش میں ہیں۔ ان کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''میں پولیس سٹیشنوں میں گئی، میں نے آرمی کیمپوں کا سفر کیا، جنگلوں میں گئی، دیہات میں، ہر اس جگہ جہاں میں جا سکتی تھی۔ میں اپنے بیٹے کی تلاش میں ہر اس مقام پر گئی، جہاں جانے کا کبھی سوچا تک نہیں تھا۔ میں صبح سویرے بغیر کچھ کھائے گھر سے نکل پڑتی تھی۔پروینہ کی تکلیف، دکھ اور احساس نے انہیں ان والدین کے ساتھ رابطوں پر مجبور کیا، جن کے بچے بالکل اسی طرح لاپتہ ہو چکے ہیں اور آج تک واپس نہیں لوٹے، ''مجھے پتا چلا میں تنہا اپنے بچے کی تلاش میں نہیں ہوں۔ نوے کی دہائی کے آغاز پر اردو زبان میں شائع ہونے والے اخباروں میں اکثر لاپتہ بچوں سے متعلق اشتہارات دیکھنے کو ملتے تھے۔ میں ان اخبارات کے تراشے سنبھال کر رکھ لیتی تھی تاکہ متاثرہ والدین کے دیہات تک پہنچا جا سکے۔اسی طرح دن گزرتے گئے اور لاپتہ نوجوانوں کے زیادہ سے زیادہ والدین پروینہ کے ساتھ شامل ہوتے گئے، یہاں تک کہ انہوں نے 1994میں لاپتہ افراد کے والدین کی ایسوسی ایشن آف پیرنٹس(اے پی ڈی پی)کی بنیاد رکھی۔ پروینہ آہنگر بتاتی ہیں، ''بہت سی مائیں تو اپنے بچوں کو تلاش کرتے کرتے خود اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ جبری گمشدگیاں موت سے زیادہ درد ناک ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن