آہ! ظفراللہ جمالی‘ قادر حسن اور ناظم شاہ
رفعت آپا کو پیشۂ صحافت میں پہلی خاتون رپورٹر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا جو اپنی حیات فانی کے آخری لمحے تک نوائے وقت کے ساتھ وابستہ رہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کے آخری سانس تک قادر حسن صاحب کی خدمت گزاری میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ میں انہیں جب بھی نوائے وقت کیلئے کچھ لکھنے کی گزارش کرتا تو وہ ہر بار پہلے قادر حسن صاحب کے ساتھ اپنی شادی کی یاد تازہ کرتیں اور بتاتیں کہ قادر حسن صاحب کے ساتھ میری شادی کیلئے مجید نظامی صاحب نے ہی میرے والدین کو رضامند کیا تھا۔ اس لحاظ سے نوائے وقت میرا میکہ بھی ہے اور سسرال بھی۔ بے شک انہوں نے اس رشتے کو آخر دم تک نبھایا۔ قادر حسن صاحب بھی بے شک نوائے وقت چھوڑ کر امروز‘ جنگ اور ایکسپریس کے ساتھ وابستہ ہوئے مگر انہوں نے بھی اپنے اندر کے نوائے وقتیئے کو مرنے نہیں دیا۔
مجید نظامی صاحب نے مجھے ایک بار نوائے وقت چھوڑ جانے والے سینئر کالم نگاروں کو واپس لانے کا ٹاسک دیا اور بطور خاص قادر حسن صاحب پر اصرار کیا چنانچہ میں نے اپنی پوری نیازمندی کے ساتھ قادر حسن صاحب سے رابطہ کرکے انہیں مجید نظامی صاحب کی خواہش سے آگاہ کیا جس پر انہوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھی اپنی زندگی کے باقیماندہ لمحات نوائے وقت کیلئے ہی وقف کرنے کے خواہش مند ہیں۔ میں نے مجید نظامی صاحب سے اس کا ذکر کیا تو وہ بھی خوش ہوئے اور مجھے انکی واپسی کی ’’فارمیلٹیز‘‘ طے کرنے کا کہا چنانچہ سلسلۂ جنبانی شروع ہوا مگر بدقسمتی سے بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ مجید نظامی صاحب کا اصولی موقف تھا کہ جتنا معاوضہ نوائے وقت کے دوسرے باقاعدہ کالم نگار لیتے ہیں‘ اتنا ہی قادر حسن صاحب کو بھی ملے گا جبکہ قادر حسن صاحب اپنی زندگی کی ضروریات کے ہاتھوں مجبور نظر آئے سو بات بنتے بنتے رہ گئی مگر اس مرحلہ پر بھی وضعداری کا دامن ہر دو جانب سے مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھا گیا۔ آج ایسی اقدار تو یوں عنقا ہوئی ہیں کہ ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل پائیں گی۔
ملتان کے شیریں مزاج اور رکھ رکھائو والے سیاست دان سید ناظم حسین شاہ سے وابستہ یادیں بھی آج امڈی پڑی نظر آرہی ہیں۔سید ناظم شاہ ملتان سے دس بارہ کلو میٹر پرے آباد ایک گائوں کے مکین تھے اور ڈیرے داری میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ اسی طرح وہ سیاست میں بھی بے باکی کی ساری حدیں عبور کرتے نظر آتے تھے۔ سیاست میں پیپلزپارٹی ان کا اوڑھنا بچھونا تھی مگر وہ کٹڑ جیالوں والے جذبے کا کبھی اظہار نہیں کیا کرتے تھے چنانچہ رکھ رکھائو والے کلچر کا دامن تھام کر وہ پیپلزپارٹی کے نظریاتی اور سیاسی مخالفین کے ساتھ بھی ذاتی مراسم میں کبھی گرہ نہیں پڑنے دیتے تھے۔ ہمارے دوست سابق صدر سپریم کورٹ بار محمد اکرم شیخ کے ساتھ ان کا بچپنے کا یارانہ تھا جس میں اکرم شیخ صاحب کے پیپلزپارٹی کے ساتھ نظریاتی فاصلے کے باوجود کبھی ڈنٹ نہ پڑا۔ اکرم شیخ صاحب نے ایم آر ڈی کی تحریک کے کٹھن دور میں لاہور کے اپنے چند دوست صحافیوں کو ملتان کی سیر کرانے کی ٹھانی اور ان دوستوں کیلئے ایک رات کی میزبانی کا شرف سید ناظم حسین شاہ کو بخشا چنانچہ ہمیں سید ناظم شاہ کے رہن سہن کا بھی قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع مل گیا۔
ملتان سے چند کوس آگے ڈیرے کی طرز کے سید ناظم شاہ کے مکان میں شب بسری ہوئی۔ گرمیوں کے دن تھے اور ملتان کی گرمی کی شدت مثالی ہوتی ہے مگر سید ناظم نے اپنے گھر کے صحن میں ہماری چارپائیاں لگوا کر زمین پر سوندھی سوندھی خوشبو والا پانی کا چھڑکائو کرایا اور چارپائیوں کے دونوں کونوں پر واٹر کولر لگوا کر گرمی کی حدت بے اثر کرنے کا ایسا اہتمام کیا کہ ملتان کی گرمی کی ضرب المثل سوغاتیں بھی شرماتی نظر آئیں۔ انکے گھر دوسری بار جانے کا اتفاق ہمیں ملتان میں پی ایف یو جے کے ایک تنظیمی اجلاس کے موقع پر ہوا اور ہم پھر انکے عشائیہ پر انکے مہمان بنے۔ وہ پیپلزپارٹی کی جانب سے میاں منظور وٹو کی کابینہ میں صوبائی وزیر نامزد ہوئے تھے چنانچہ اس دور میں انکی شاہراہ قائداعظم والی سرکاری اقامت گاہ پر اکثر نشستیں ہوتی رہیں۔ وہ ہر بار کیوڑہ ملے روح افزاء کے شربت سے تواضع کرتے جس کی خوشبو پورے کمرے میں پھیل جاتی اور پھر عمل و آگہی کی کرنیں بکھیرتی انکی گفتگو پیپلزپارٹی کی جیالا کلچر والی سیاست پر حاوی ہوجاتی۔ اس دور میں صوبائی اقتدار کے ایوانوں میں ٹکا محمد اقبال اور سید ناظم حسین شاہ کی سیاسی دوربینی کے چرچے تھے۔ رکھ رکھائو اور اقدار والی اس دور کی سیاست کا آج سیاست کو ذاتی دشمنیوں کے دہکائے گئے میدان میں جھونکنے والے کلچر کے ساتھ موازنہ کرنا بھی سیاست کے زریں اصولوں کو بٹہ لگانے کے مترادف نظر آتا ہے۔ اور آج تو…؎
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماشبینوں میں
………………… (ختم شد)