• news

حکومت مذاکرات کیلئے تیار، اپوزیشن کنفیوز، شہباز شریف ، مریم میں واضح تضاد: شاہ محمود

ملتان (سپیشل رپورٹر) وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ کرپشن اور این آر او کے علاوہ تمام قومی معاملات پر اپوزیشن سے مذاکرات کیلئے تیار ہیں۔ ہم نے مذاکرات سے فرار کبھی نہیں کیا۔ این آر او کو ملکی مفاد کے ساتھ نہ جوڑا جائے۔ عمران خان راتوں رات کسی کے اشارے پر نہیں آئے بلکہ ایک سیاسی حقیقت بن چکے ہیں۔ جو کہ 22سال کی طویل سیاسی جدوجہد کے بعد بھرپور عوامی مینڈیٹ لیکر آئے ہیں۔ پی ٹی آئی ایک پولیٹیکل حقیقت بن چکی ہے جو سیاسی انداز میں اس کرپٹ ٹولے سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ن لیگ میں شہباز شریف اور مریم کے موقف میں واضح تضاد ہے۔ اپوزیشن میں استعفوں سمیت بہت سارے معاملات میں کنفیوژن ہے۔ اگر استعفے دینے ہیں تو 8 تاریخ کو اجلاس ہے اس میں فیصلہ کریں انہیں کس نے استعفے دینے سے روکا ہے۔ پی ڈی ایم ڈگمگا رہی ہے۔ پی ڈی ایم کا اتحاد غیر فطری ہے۔ نظریاتی ہم آہنگی نہیں ہے وہ وقتی ضروریات کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں۔ کرونا وباء کی صورت حال پر پی ڈی ایم کو دعوت دی کہ آئیں اور ایک تفاق رائے سے پالیسی بنائیں وہ نہیں آئے۔ گلگت بلتستان انتخابات میں دو بارہ دعوت دی کہ ہمیں اپنے تحفظات بتائیں وہ نہیں آئے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز رضا حال ملتان میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا ملتان جلسہ کی تعداد کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ پی ڈی ایم کا ملتان میں جلسہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ جلسہ انسانی جانوں سے کھیلنے کا مترادف ہے۔ میری رائے میں گرفتاریاں نہیں ہونی چاہئیں تھیں جس نے بھی کیا غلط کیا جس نے بھی کیا اس نے سیاسی سوچ کا مظاہرہ نہیں کیا۔ واضح ہدایت تھی کہ کوئی تشدد کوئی لاٹھی چارج نہ کیا جائے۔ میں نے کابینہ میں بھی اپنا موقف پیش کیا تھا جلسہ نہیں ہونا چاہیئے تھا نہ ہی انتظامیہ کو کنٹینرز لگانے چاہیئں تھے۔ لیکن کہہ سکتہ ہوں کہ پاور شو ناکام تھا۔ اگر یہ جلسہ قاسم باغ سٹیڈیم میں ہوتا تو ناکام شو کی ساری قلعی کھل جاتی۔ چار گھنٹے کے شو کو چار دن تک کیچ کروایا گیا۔ ملتان جلسے میں رکاٹ ڈالنے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا میری سوچ کبھی بھی غیر سیاسی اور غیر جمہوری نہیں رہی۔ ہاں اگر کوئی الزام لگانا چاہے تو میں کسی کو روک نہیں سکتا۔ ثابت کر سکتے ہیں تو کریں۔ انہوں نے کہا کرونا وائرس کی دوسری لہر زیادہ شدید ہے۔ کرونا اموات پاکستان میں صفرکے قریب آگئی تھی لیکن اب دوبارہ بڑھ رہے ہیں۔ نشتر ہسپتال میں مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ تمام صورتحال ہماری غفلت کی وجہ سے ہے۔ شہری معمول کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں لیکن حالات معمولی نہیں۔عوام سے اپیل کرتا ہوں برائے مہربانی ایس او پیز کو فالو کریں معمولات کو محدود کریں۔ ہمارے دانشوروں کو میڈیا کو اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔ میڈیا سے گزارش ہے کہ میڈیا کرونا سیکنڈ ویو میں بھی اپنا موثر کردار ادا کرے جیسا کے پہلے کیا تھا۔ میںعمرہ پر گیا تو وہاں پر 200سے زیادہ افراد طواف کرتے نظر نہیں آئے۔ اگر ہم حج کو محدود کرنے کی وجہ کو بھی تسلیم نہ کریں یہ ہماری ناکامی ہے۔ اگر عمرے تک کو محدودکیا گیا توکوئی تو وجہ ہوگی لیکن اپوزیشن اس کو نہیں سمجھتے۔ سندھ میں پی پی حکومت کا کرونا ایس او پیز کے حوالے سے دوہرا کردار ہے۔کرونا کی پہلی لہر کے دوران سندھ کے وزیراعلیٰ پریس کانفرنس میں ہاتھ جوڑکر لاک ڈاؤن کا مطالبہ کرتے تھے تو اب کیا ہوگیا کہ سب کچھ بھول گئے۔ انہوں نے کہا بھارتی حکومت غاصبانہ اقدامات کی بدولت کشمیر کی صورتحال بگڑتی جا رہی ہے۔ ہندوستان میں بھارتی حکومت کی کشمیر پالیسی پر نکتہ چینی کی جارہی ہے۔ ہندوستان میں رائے پیدا ہو رہی ہے کہ بی جے پی کی پالیسی ناکام ہو چکی ہے۔ او آئی سی کے57 ممالک نے بھارت کی کشمیر پالیسی پر تنقید کی گئی۔ بابری مسجد کو شہید کر کے وہاں مندر کا سنگ بنیاد رکھا گیا جو کہ او آئی سی نے مسترد کر دیا۔ کرتار پور میں پاکستان نے خیر سگالی کا مظاہرہ کیا لیکن ہمیں بھارت کی طرف سے جواب میں خیر سگالی کا عنصر نظر نہیں آیا۔ کلبھوشن یادیو کے معاملے پر آئی سی کے میں بھارت کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ہم دو بار کلبھوشن رسائی دے چکے ہیں۔ تیسری بار تیار ہیں لیکن بھارت اپنے شہری سے منہ چھپا رہا ہے۔ آنکھیں چرا رہا ہے۔ ہم نے ہندوستان کو عالمی برادری میں بے نقاب کیا ہے اسکی دہشت گردی کی کوششوں پر ڈوزئیر پیش کیا جس کا وہ دنیا بھر میں کہیں جواب نہیں دے سکا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم افغانستان میں امن و استحکام چاہتے ہیں اس پر پیش رفت ہو رہی ہے۔ امن کا عمل آگے بڑھ رہا ہے۔ پہلا اشارہ ملا جب دوحہ میں اجلاس ہوا۔ وہ افغانستان جو پاکستان پر انگلیاں اٹھاتا تھا اس نے 57 ملکوں کے سامنے پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔ پاکستان نے بارڈر کو محفوظ کرنے کے لیے پاک افغان بارڈ افینسنگ کا کام ہو رہا ہے۔ جبکہ پاکستان نے ایران بارڈر پر بھی افینسنگ کا فیصلہ کیا ہے۔ انشاء اللہ افینسنگ ورک کے اہداف اس سال کے آخر میں حاصل کر لیں گے۔انہوں نے امریکہ کہ نومنتخب صدر جوبائیڈن کی سوچ ٹرمپ انتظامیہ سے جداگانہ دکھائی دے رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں امریکہ کی نئی انتظامیہ آنے والی ہے وہ شاید سفارت کاری کو ترجیح دے جو کہ خوش آئند اقدام ہوگا۔ نواز شریف کی وطن واپسی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا برٹش انتظامیہ سے خط وکتابت بھی ہوئی معاملات چل رہے ہیں۔ جن کو ہم قائل کرنا چاہتے تھے وہ آج قائل ہو چکے ہیں۔ نواز شریف کی صحت ٹھیک ہے انکو جان کا خطرہ نہیں ہے ان کو واپس آنا چاہئے۔

ای پیپر-دی نیشن