سودی نظام کیخلاف مقدمات: وفاقی شرعی عدالت نے طویل التواء کی درخواست مسترد کر دی
اسلام آباد (اعظم گل+خصوصی رپورٹر) وفاقی شرعی عدالت نے سودی نظام کے خلاف مقدمات کی سماعت میں طویل التواکے لئے سٹیٹ بنک کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس مقدمہ کو طویل عرصے تک ملتوی نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت نے مقدمہ کے فریقین سے تحریری موقف طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 18دسمبرتک ملتوی کر دی۔ چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت جسٹس محمد نور مسکانزئی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ملک سے سودی نظام کے خلاف دائر آئینی درخواستوں کی سماعت کی تو سٹیٹ بنک آف پاکستان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے گزشتہ سماعت کے حکم کے مطابق تحریری معروضات جمع کرانے کی بجائے زبانی طور پر موقف اختیار کیا کہ ان کی اٹارنی جنرل پاکستان اور سٹیٹ بنک کے اعلی حکام سے مشاورت ہوئی ہے جنہوں نے اس معاملے میں عدالت سے وقت لینے کی تجویز دی ہے تاکہ مناسب تیاری کے ساتھ عدالت کی معاونت کی جائے۔ عدالت نے سٹیٹ بینک کے وکیل سے کہا کہ اٹارنی جنرل اور صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز اس عدالت کے سماعت کے دائرہ اختیار کو تسلیم کر چکے ہیں۔ ان کا موقف عدالتی ریکارڈ کا حصہ بن چکا ہے ہمیں علم نہیں ہے اٹارنی جنرل تبدیل ہو چکے ہیں یا نہیں۔ کیا اب حالات تبدیل ہو گئے ہیں اور وفاق کا موقف تبدیل ہو گیا ہے؟۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل کا موقف جمع ہو چکا ہے اور وہ ریکارڈ کا حصہ بن چکا ہے۔ عدالت مزید انتظار نہیں کر سکتی۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 29 کے تحت یہ پالیسی کا معاملہ ہے۔ اس میں عدالت مداخلت نہیں کر سکتی۔ آرٹیکل38 بھی حکومت کو پابند نہیں کرتا کہ اتنے عرصے میں رباہ ختم کیا جائے۔ آرٹیکل 38 میں کہا گیا ہے کہ ریاست جتنا جلدی ممکن ہو گا رباہ ختم کرے گی۔ اس ضمن میں اقدامات اٹھانا پارلیمنٹ یا حکومت کا کام ہے۔ عدالت حکم نہیں دے سکتی۔ عدالت نے کہا کہ اس ضمن میں جو قانون سازی زیر التواء ہے۔ اس کے حوالے سے اب تک جو پیش رفت ہوئی ہے اس سے عدالت کو آگاہ کیا جائے۔ جماعت اسلامی کے وکیل قیصر امام ایڈووکیٹ نے سٹیٹ بنک کے وکیل کے دلائل سے اختلاف کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ آئین کے آرٹیکل203 کے تحت اس عدالت کو سماعت کا اختیار ہے اور درخواست گزاروں کی طرف سے کسی آئینی شق کو چیلنج نہیں کیا گیا اور درخواستوں میں یہ بھی استدعا نہیں کی گئی کہ آئین سے انٹرسٹ کا لفظ ختم کیا جائے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی رہنما پروفیسر ابراہیم نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ آئین کی رو سے قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بن سکتا۔ چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل شرعی عدالت کے دائرہ اختیار کو تسلیم کر چکے ہیں۔ یہ عدالت آئین اور قانون میں تبدیلی کا حکم نہیں دے سکتی اور نہ ہی کوئی قانون بنانے سے روک سکتی ہے۔ عدالت نے سلمان اکرم راجہ کی طرف سے کیس کی سماعت جنوری تک ملتوی کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کیس کی سماعت18 دسمبر تک ملتوی کر دی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ جو اقدامات بھی کرنا ہیں حکومت نے کرنے ہیں۔ اگر حکومت نے کوئی پیش رفت کی ہے تو اس سے عدالت کو آگاہ کیا جائے۔ عدالت نے کہا کہ تمام فریقین اپنی معروضات تحریری طور پر عدالت میں جمع کرائیں جائیں۔