• news

ملکی تشخص کو بہت نقصان احتساب ضروری کسی کو تو ذمہ دار ٹھہرانہ ہوگا

اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے پائلٹ سید ثقلین اختر کی لائسنس منسوخی اور نوکری سے برطرفی کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ پائلٹ لائسنسز کے حوالے سے ایوی ایشن ڈویژن کے طریقہ کار نے پورے پراسس کو مشکوک بنایا ہے، اب تو یہ بھی کلئیر ہو چکا ہے کہ 262 پائلٹس کی لائسنس جعلی ہونے کی معلومات غلط تھی اب احتساب بھی ضروری ہے کسی کو تو اس کا ذمہ دار ٹھہرانا ہو گا۔ اس سے ملک کے تشخص کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے بھی عدالت کی رائے سے اتفاق کیا۔ چیف جسٹس نے سول ایوی ایشن کی وکیل سے مکالمے میں کہا کہ کیا یہ ایوی ایشن ڈویژن کسی کی خواہشات پر چلتا ہے یا قانون پر چلتا ہے۔ اس طرح کے بیانات سے ملک کے امیج کو نقصان ہوا ہے۔ جس طرح پائلٹس لائسنس کے معاملے کو ہینڈل کیا گیا بہت مایوس کن ہے۔ نیشنل ائیر لائن کی سروس تو معطل ہے بیرون ممالک میں موجود ہمارے پائلٹ متاثر ہوئے۔ عدالت اس کو سراہتی ہے کہ حکومت نے نئے ڈی جی کی تعیناتی کی ہے، درخواست گزار پائلٹ کے وکیل  نے کہا کہ پائلٹس کو سول ایوی ایشن اتھارٹی نے جنوری 2019ء کو شوکاز نوٹس جاری کیا گیا، شوکاز نوٹس ایڈیشنل ڈائریکٹر لائسنسنگ اتھارٹی نے جاری کیا، سیکرٹری ایوی ایشن نے بورڈ آف انکوائری کی تشکیل کی۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا اس بورڈ آف انکوائری کی وجہ سے یہ سارا معاملہ شروع ہوا ہے؟۔ قانون میں کہاں لکھا ہے کہ وفاقی حکومت ڈی جی کا اضافی چارج دے سکتی ہے۔ سیکرٹری نے اپنے آپ کو ڈی جی سمجھ کر شوکاز نوٹس جاری کردیا، سیکرٹری کی تعیناتی بطور ڈی جی اضافی چارج قانون کے خلاف ہے۔ بورڈ آف انکوائری کس قانون کے تحت سیکرٹری نے تشکیل دی تھی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر عدالت کچھ وقت دے دے تو میں ہدایات لیکر عدالتی معاونت کر سکتا ہوں۔ عدالت نے کہا کہ سیکرٹری کے اس طرح کے فیصلے سے نیشنل ائیر لائن پر برے اثرات پڑے۔ عدالت نے پہلے درخواست منظور کی۔ بعدازاں کیس پر مزید دلائل کے لیے درخواست 17دسمبر تک سماعت کے لئے مقرر کردی۔

ای پیپر-دی نیشن