پیپلز پارٹی کی سی ای سی کے اجلاس کی تاریخ مقرر نہیں کی گئی
اسلام آباد (عترت جعفری) پاکستان پیپلز پارٹی نے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے بارے میں سی ای سی میں حتمی فیصلہ ہونے تک پارٹی ر ہنمائوں کو اس نازک معاملہ پر میڈیا یا پبلک میں رائے دینے سے روک دیا ہے۔ پارٹی کی سی ای سی کے اجلاس کی ابھی تاریخ مقرر نہیں کی گئی ہے تاہم یہ اجلاس 27دسمبر کو ہوسکتا ہے جب پارٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کا یوم شہادت منائے گی اور پارٹی کی سی ای سی کے تمام ممبران گڑھی خدا بخش میں جمع ہوں گے اور وہاںروایتی طور پر ہر سال اجلاس ہوتا ہے۔ پی پی پی کے ذرائع نے کہا ہے کہ یہ اجلاس اس سے قبل بھی ہو سکتا ہے اور ارکان کی دستیابی کو دیکھا جا رہا ہے جس کے بعد اس بارے میں حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی استعفی کے آپشن کو باریک بینی سے دیکھ رہی ہے اور بعض راہنمائوں نے تحفظات قیادت کے گوش گزار کئے ہیں ،قیادت نے اس پر فیصلہ کیا ہے کہ ان پر سی ای سی میں کھل کر زیربحث لایا جائے گا اور اکثریتی رائے کو سفارشات کی شکل میں پی ڈی ایم کو پیش کر دیا جائے گا ، پارٹی کے ذرائع کا کہناتھا کہ اب پی ڈی ایم کی تحریک کا اہم موڑ آ چکا ہے ،پی پی پی کے اندر اس وقت مختلف راہنمائوں میں جو پالیسی پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں جنکات پر بحث جاری ہے ان کے مطابق یہ دیکھا جا رہا ہے کہ لانگ مارچ کی کال پر کیا عوام اس کا حصہ بنیں گے؟ان کا دوسرا کنسرن یہ ہے کہ اگر استعفی کا آپشن بھی زیر عمل آ جاتا ہے تو کیا ضمانت ہے کہ نئے انتخابات ہو سکیں گے؟ ،پی پی پی حکومت کے اعلانات کو بغور سن رہی ہیں کہ ضمنی انتخاب کرائے جائیں ، اگر ایسے ضمنی انتخاب ہوتے ہیں تو پھر کیا آپشن ہو گا ، ایک اور اہم کنسرن یہ بھی ہے کہ اگر ایشواعلی عدلیہ کے پاس چلا جاتا ہے تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا ؟اگر اس کے نتیجہ میں نئے انتخابات ہو جاتے ہیں اور پی ٹی آئی دوتہائی اکثریت سے آ جاتی ہے توپھر کیا ہو گا ؟پی پی پی اس بات کی وجہ بھی جاننا چاہتی ہے کہ مولانا فضل الرحمان لانگ مارچ ،اور استعفی کے آپشن کے مثبت نتائج نکلنے کے حوالے سے پر اعتماد کیوں ہیں؟ جبکہ ان کا اس سے پہلے کا دھرنا بے نتیجہ رہا تھا ،پی پی پی غیر سیاسی مداخلت کے بھی حق میں نہیں ہے ،پی پی پی کے اندر یہ سوچ بھی موجود ہے کہ تحریک کامیاب ہو جائے تو پی ڈی ایم کو مستقبل کیا ہوگا ،ان کے کچھ راہنمائوں بتانا تھا کہ میاں نواز شریف ایک اجلاس میں کہہ چکے ہیں کہ پی ڈی ایم کو آئندہ دو انتخابات تک اتحاد کے طور پر رہنا چاہئے،پی پی پی کو ا بھی اس بارے میں اپنیء رائے پی ڈی ایم کے سامنے رکھ دینا چاہئے کہ آیا اسے انتخابی اتحاد میں بدلا جائے یا نہیں ؟،گذشتہ روز جب بلاول بھٹو زرداری نے کچھ پارٹی راہنمائوں کے ساتھ مشاورت کی تھی تو انہوں نے واضح کیا کہ وہ اپنی ذاتی رائے کو پارٹی پر مسلط نہیں کریں گے اور ان نازک امور پر جو بھی اکثریتی آرا سامنے آئے گی اسی کو پی ڈی ایم کے سر براہی اجلاس میں لے کر جائیں گے ۔