نہ شہباز شریف نہ حمزہ شہباز صرف مریم نواز مریم نواز!!!
حکومت پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے جلسوں کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی لیکن یہ بھی طے ہے کہ حکومت پی ٹی ایم کی کی مقبولیت کو بڑھانے کے لیے یا عوامی جذبات کو ان کے حق میں کرنے میں ضرور کامیاب ہو جائے گی۔ پارلیمانی طرز حکومت میں اپوزیشن کیا کر رہی ہے کیا نہیں کر رہی وہ غلط ہے یہ درست یہ بحث بعد کی ہے لیکن اگر اپوزیشن حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکلتی ہے عوام کو متحرک کرتی ہے تو پھر کوئی بھی حکومت اسے روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی حکومت اپوزیشن جماعتوں تو کے اتحاد کو توڑنے ان کے اتحاد میں دراڑیں ڈالنے یا انہیں کسی اور طریقے سے احتجاج کو ملتوی کرنے کے لیے قائل کر لے تو الگ بات ہے لیکن اگر حکومت صرف یہ سمجھے کہ وہ طاقت کے زور پر یا بیانات کے دباؤ میں اپوزیشن کو روک لے گی تو یہ یہ اس کی غلط فہمی ہے۔ اس طرح کی حکمت عملی سے صرف اور صرف حکومت کی مقبولیت میں ناصرف کمی آتی ہے بلکہ جو گھر میں بیٹھے ہوتے ہیں وہ بھی میدان میں نکل آتے ہیں۔ یہی وہ عوامی جذبات ہیں جو حالات اور سوچ کو بدلتے ہیں اور بظاہر ناممکن دکھائی دینے والے کام میں ممکن ہو جاتے ہیں۔
حکومت جو کارکردگی بتاتی ہے اس سے عام آدمی کی زندگی میں کیا فرق آیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان ان کے معاونین خصوصی ان کے وزیر ان مشیران اور جماعت کے اکابرین جو کامیابیاں بتاتے گنواتے یا دہراتے رہتے ہیں یا اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرتے ہیں وہ عوام کو یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ اس ساری مشق سے عام آدمی کی زندگی پر کیا فرق پڑا ہے۔ عوامی مسائل کو حل نہ کیا جائے اور صرف اور صرف اعدادوشمار لوگوں کے سامنے پیش کیے جائیں گے وہ سچ بھی ہو کوئی اسے تسلیم نہیں کرے گا۔ کیونکہ یہ کہیں نہیں ہوتا کہ کوئی حکومت عام آدمی کی زندگی کو آسان بنانے اور عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے اور اس کے برعکس وہ ان تمام چیزوں کو عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے کامیابی کے کا ڈھنڈورا پیٹتی نظر آئے اور عام آدمی کی زندگی ہر گزرتے دن کے ساتھ مشکل ہوتی چلی جائے آئے تو کون تسلیم کرے گا کہ ہمارے ترسیلات زر بڑھے ہیں ہماری امپورٹ کم ہوگئی ہے ہماری ایکسپورٹ بڑھ گئی ہے۔ کون مانے گا کہ ملک درست سمت آگے بڑھ رہا ہے۔ اگر یہ بات درست بھی ہو اسے حقیقت تسلیم کر بھی لیا جائے پھر بھی یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آپ کا غریب شہری بھوک سے مر رہا ہوں غربت میں اضافہ ہوجائے لوگ بھیک مانگنے پر مجبور ہوجائیں اور حکومت یہ کہتی رہے کہ آرام کریں تسلی رکھیں گھبرانا نہیں ہے آنے والے دنوں میں سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ رویہ قابل قبول نہیں۔ جو لوگ آج مسائل کا شکار ہیں جن کی زندگی مشکل ہو رہی ہے ان کے لیے زندگی کو بہتر بنانا یا پھر ان کے لئے زندہ رہنے میں میں دلچسپی پیدا کرنا یا ان کے دلوں میں وطن کی محبت کے جذبات کو بڑھانا صرف اور صرف حکومت کی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ جب تک آپ عام آدمی کی زندگی کو آسان اور بامعنی نہیں بنائیں گے ریاست اپنے شہریوں کے مسائل حل نہیں کرے گی تو عوام سے کبھی بھی سنجیدگی اور حب الوطنی کا تقاضا نہیں کر سکتے۔ کیونکہ جہاں زندگی اور موت میں کوئی فرق باقی نہ رہے تو لوگوں کے لئے زندہ رہنے کا مقصد فوت ہو جاتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے جو عوام میں بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ سوا دو سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے حکمران ابھی تک عام آدمی کے مسائل کی نشاندہی اور ان کو حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ تکلیف دے بات یہ ہے کہ حکومت عوامی مسائل کو حل کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ بھی نہیں کرتی اور مستقبل قریب میں اس حوالے سے کسی بہتری کی امید نظر نہیں آ رہی۔ کیا ان رویوں کے ساتھ اپوزیشن کو سڑکوں پر آنے اور عوام کو اس تحریک میں شامل ہونے سے روک سکتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے اور اس کی واضح مثال عوام مریم نواز کی بڑھتی ہوئی مقبولیت ہے۔ مریم نواز شریف جو کہ اپنے والد میاں نوازشریف کی عدم موجودگی میں ان کے پیغام کو آگے بڑھانے کے لئے ذمہ داری ادا کر رہی ہیں۔ ان کی بنیادی حیثیت صرف یہی ہے کہ وہ اپنے والد کی نمائندگی کر رہی ہیں لیکن یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ اس مشکل وقت میں انھوں نے خود کو ایک حوصلہ مند خاتون کے طور پر منوا لیا ہے۔ وہ جس انداز میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے کارکنوں کو نا صرف متحرک کر رہی ہیں بلکہ گھر گھر گلی گلی جا کر انہیں سڑکوں پر لانے کی ترغیب دے رہی ہیں یہ ان کی عوامی سطح پر بڑھتی ہوئی مقبولیت کی نشانی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کے تمام نمایاں سیاسی رہنما جو کل تک جماعت میں مریم نواز کی بڑھتی ہوئی مداخلت سے خائف تھے آج وہ سارے کے سارے ہاتھ باندھے ان کے پیچھے یا ان کے ساتھ یا ان کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آتے ہیں اور وہ تمام آوازیں جو ان کی اپنی جماعت میں ان کی سیاسی مخالف سمجھی جاتی تھی آج سب کے سب ان کے حمایتی ہیں اور یہی مریم نواز کی سب سے بڑی کامیابی ہے کہ ان کی اپنی جماعت میں ان کی حیثیت کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کامیابی کے لئے میدان انہیں پاکستان تحریک انصاف نے فراہم کیا ہے۔ حکومت نے نواز شریف کو باہر بھیج کر اور عوامی مسائل کو نظر انداز کرکے کے پی ٹی آئی نے مریم نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کو سیاست کا موقع دیا ہے۔ آج اگر مریم نواز کی سیاسی جدوجہد پر نظر ڈالی جائے تو انیس سو چھیاسی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کے موقع پر پیپلز پارٹی کے انکلز بھی محترمہ کو قبول کرنے یا انہیں تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے تھے لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو نے نے اپنی پارٹی کی قیادت بہترین انداز میں کرتے ہوئے ووٹرز کو متحرک کیا اور کراؤڈ پلر کے طور پر سامنے آئیں اور پھر وہ سیاسی جماعت کو مقبول بنانے میں کامیاب بھی ہوئیں۔ آج وہی کام مریم نواز کر رہی ہیں ان کی مقبولیت عوام میں بھی بڑھ رہی ہے اور لوگ ان کی آواز پر لبیک کہہ رہے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ہر گھر کا دروازہ کھٹکھٹا رہی ہیں دستک دے رہی ہیں لوگوں کو باہر نکال رہی ہیں۔
دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اپنے گھروں میں چھپے بیٹھے ہیں یا پھر وہ اپنے دوستوں کے گھروں میں چھپے بیٹھے ہیں یا پھر وہ سرکاری دفتروں میں چھپے بیٹھے ہیں جہاں بیٹھ کر آج تک انہوں نے عوامی فلاح پا عوامی فلاح و بہبود کا کوئی کام نہیں کیا وہ وہ اس سستی سے یا نالائقی سے ناصرف ملک و قوم کے وسائل کو ضائع کر رہے ہیں بلکہ قوم کے قیمتی وقت کو بھی ضائع کر رہے ہیں جو کبھی لوٹ کر نہیں آسکتا۔ بدقسمتی سے پاکستان تحریک انصاف میں نیچے سے اوپر اور اوپر سے نیچے تک کوئی بھی شخص عوامی مسائل کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج باوجود اس کے کہ پاکستان کا بچہ بچہ میاں نواز شریف آصف علی زرداری اور پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو چور سمجھتا ہے کرپٹ سمجھتا ہے لیکن اس کے باوجود آج بھی ان سیاسی جماعتوں کے پیچھے لگ کر یا ان کی تحریک کا حصہ بن کر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی اس سے بڑی ناکامی اور کیا ہو گی کہ وہ جن وعدوں یا دعووں کے ساتھ ساتھ اقتدار میں آئے آج وہی نعرے اور وعدے اپوزیشن انہیں یاد کروا رہی ہے اور پی ٹی آئی کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ حزب اختلاف کو جلسوں سے روکنے کے لیے بات چیت سے زیادہ بہتر اور موثر کوئی عمل نہیں ہو سکتا لیکن سیاسی افلاطون اور خود کو عقل کل سمجھنے والے آج اس سطح پر پہنچ چکے ہیں کہ کوئی ان کی بات سننے کو تیار نہیں ہے۔ یہ کس طرح کا طرز عمل ہے کہ آپ حزب اختلاف کے بغیر کچھ کر بھی نہیں سکتے اور آپ ہر وقت ان کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں پھر آپ ان سے یہ توقع بھی کرتے ہیں کہ وہ آپ کی تمام باتیں مان جائیں اور آپ کے ہر پیش کئے ہوئے کاغذ پر آنکھیں بند کرکے دستخط کر دیں تو یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ پارلیمنٹ میں موجود اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کبھی بھی ہر پیش کئے گئے کاغذ پر آنکھیں بند کرکے دستخط نہیں کرتے ہیں۔ وہ ہر وقت اپنے سیاسی مستقبل اور اپنے ووٹر سے کیے گئے وعدوں کو ذہن میں رکھتے ہیں اور وہ یہ جانتے ہیں کہ انہیں دوبارہ ایوان میں آنے کے لیے اپنے ووٹرز کے پاس جانا ہوگا اور اگر انہوں نے اپنے ووٹرز کے کام نہیں کیے ہونگے یا اپنے علاقائی مسائل کو حل نہیں کیا ہوگا اور ملکی سطح پر عوام کی بہتری کیلئے آواز نہیں اٹھائی ہو گی تو کل کلاں کوئی بھی ان کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں ہوگا۔ آج پاکستان تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی کا یہ عالم ہے کہ انھیں لالے پڑے ہوئے ہیں کہ اگر کل کلاں عوام کے پاس جانا پڑا تو وہ اپنی اس کارکردگی کا دفاع کیسے کریں گے۔
حکومت کی فیصلہ سازی کا یہ عالم ہے کہ اس شعبے میں اس کے سو میں صفر نمبر ہے اور اب حکومت کی کمزوری فیصلہ سازی کے چرچے بیرونی دنیا میں بھی ہو رہے ہیں اور عالمی ادارے اس پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ ہم تو مسلسل اس حوالے سے انہیں صفحات پر لکھ رہے ہیں۔ حکومت کو یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ غلط فیصلے یا درست فیصلے تو بعد کی بات ہے لیکن اس حکومت میں تو فیصلے کرنے کی صلاحیت ہی موجود نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج ملک میں ہر جگہ سیاسی عدم استحکام ہے اور عوامی سطح پر بے چینی بڑھ رہی ہے۔ اگر حکومت نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لئے تو پھر یہاں مجبور لوگوں کو روکنا کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔گوکہ بہت ساری چیزیں حکومت کو فا ئدہ دیتے ہوئے نظر آتی ہیں لیکن یہ جو سینکڑوں ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل رہے ہیں اگر ان کی تعداد لاکھوں میں بدل گئی تو پھر یہ نہیں رکیں گے اور پھر انہیں روکنا کسی کے بس میں بھی نہیں ہوگا۔ اس لیے بہتر ہے کہ یہ وقت آنے سے پہلے اپنے طرز عمل پر غور کریں۔ عوامی مسائل حل کریں اور اپنے اعداد و شمار کے ماہرین کو یہ ہدایت دیں کہ وہ عوام کے سامنے حق اور سچ بات رکھیں۔ عوام کو گمراہی میں رکھنے کے بجائے حقیقت ان کے سامنے رکھیں۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کو نظام کا حصہ سمجھیں اور ان کا جائز حق اور مقام جو پارلیمنٹ انہیں دیتا اس پر ان کا استحصال نہ کریں۔ ساتھی سیاستدانوں میں اعتماد کی فضا کو کم کرنے کے لیے یہ جو زبانی بمباری جاری ہے اس سے گریز کریں۔ عوام بیانات سننے کے بجائے آپ کے عمل کی منتظر ہے اور یہ مثال اوپر سے نیچے تک قائم ہونی چاہیے کیونکہ وزیراعظم عمران خان صرف اور صرف پاکستان تحریک انصاف کے ووٹرز کے وزیراعظم نہیں ہیں وہ پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کے وزیراعظم ہیں۔ اس بائیس کروڑ عوام کے ملک کی درجنوں سیاسی جماعتوں کے سینکڑوں ہزاروں لاکھوں کروڑوں کارکن موجود ہیں اور وہ سب بھی جو ووٹ نہیں کرتے ان تمام شہریوں کے حقوق کا تحفظ اور ان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا زیراعظم عمران خان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔