وزیراعظم سے طاہر اشرفی کی ملاقات‘کرونا کیخلاف علمائ‘ مشائخ کے ذریعے مہم پر گفتگو
اسلام آباد + لاہور (وقائع نگار خصوصی+ خصوصی نامہ نگار) وزیر اعظم عمران خان سے نمائندہ خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی طاہر محمود اشرفی نے ملاقات کی۔ علماء اور مشائخ کے ذریعے کرونا وباء سے تحفظ کے لیے ترغیبی مہم پر گفتگو کی گئی۔ وزیر اعظم نے کہا کے عالمی سطح پر اسلاموفوبیا اور ناموس رسالت کی حساسیت کو اجاگر کرنا ہی دین اسلام کی اصل خدمت ہے۔ وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان میں بسنے والے تمام مذاہب کے شہری برابر کے حقوق رکھتے ہیں۔ خصوصی نامہ نگار کے مطابق تمام مذاہب و مکاتب فکر کے قائدین نے امریکہ کی طرف سے پاکستان میں عدم مذہبی آزادی کی رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ رپورٹ تعصب، لاعلمی اور پراپوگنڈہ کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ قائدین نے کہا کہ امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ پاکستان میں آئے اور حقائق کی بنیاد پر فیصلہ کرے۔ پاکستان کا آئین اور دستور تمام مذاہب اور مکاتب فکر کے لوگوں کو مکمل مذہبی آزادی دیتا ہے اور ان کے حقوق کا محافظ ہے۔ قانون توہین ناموس رسالت کی وجہ سے کئی جانیں محفوظ ہوئی ہیں اور قانون توہین ناموس رسالت کا غلط استعمال گذشتہ دو سالوں کے دوران ختم ہوا ہے۔ حکومت پاکستان اور مسلم علماء دعوت دیتے ہیں کہ اگر کوئی ایسا کیس ہے جس میں یہ قانون غلط استعمال ہوا ہے تو اسے سامنے لایا جائے۔ مفروضوں کی بنیاد پر پاکستان کے آئین، قانون اور دستور پر اعتراضات نہ کیے جائیں۔ یہ بات چیئرمین پاکستان علماء کونسل و نمائندہ خصوصی وزیر اعظم برائے بین المذاہب ہم آہنگی و مشرق وسطیٰ حافظ محمد طاہر محمود اشرفی کے ہمراہ علامہ سجاد حسینی، مولانا غلام اکبر ساقی، پادری عمانئول کھوکھر، مولانا قاسم قاسمی، مولانا طاہر عقیل اعوان ، مولانا ابو بکر صابری ، مولانا محمد شفیع قاسمی ، مولانا نائب خان ، مولانا محمد خان لغاری اور چرچ آف پاکستان کے نمائندوں نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ امریکی کمیشن کی طرف سے پاکستان کو عدم مذہبی آزادی والے ممالک میں شامل کرنا افسوسناک اور قابل مذمت عمل ہے۔ اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ ہندوستان اور پاکستان دشمن قوتیں کس طرح پراپوگنڈہ کر کے پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تمام علماء اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ کسی کو جبر اور تشدد کی بنیاد پر مذہب تبدیل نہیں کیا جا سکتا ،ایسے تمام واقعات کو کیس ٹو کیس دیکھا جا رہا ہے ، اسی طرح جبری شادی کے عمل پر بھی علماء اسلام اپنی رائے دے چکے ہیں اور اس سلسلہ میں حکومت پاکستان، تمام مکاتب فکر کے علماء اور تمام مذاہب کے قائدین کے درمیان گفتگو کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان حکومتی سطح پر امریکہ سے اس رپورٹ کے حوالے سے بات چیت کرے گا اور امریکی کمیشن کے سامنے اصل حقائق کو رکھا جائے گا۔ا نہوں نے کہا کہ پاکستان میں رہنے والے غیر مسلموں کاآئین پاکستان محافظ ہے ، کسی بھی اقلیت کو کسی گروہ جماعت یا جتھہ سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مختلف سطح پر پیدا ہونے والے مسائل کے حل کیلئے انٹرفیتھ ہارمنی کونسلز کے قیام کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور مرکزی سطح پر آئندہ ہفتے اس کا اعلان کیا جائے گا۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ہے کہ سعودی عرب میں مسلمانوں کے مقدسات ہیں اور مکہ اور مدینہ میں غیر مسلموں کا داخلہ قرآن و سنت کے مطابق ممنوع ہے جسے کوئی تبدیل نہیں کر سکتا۔