آر یا پار
پی ڈی ایم کی قیادت نے 8 دسمبر کو آر یا پار کا دعویٰ کیا تھا۔ وہ دن گزرا اور کئی دن گزر گئے۔کچھ بھی آر یا پار نہیں ہوا اگر ہوا ہے تو صاحبِ نظر والوں نے دیکھا ہوگا۔ آر اور پار کے درمیان ’’وچکار‘‘ بھی ہوتا۔ مولانا نے بڑے وثوق اور مدبرانہ انداز میں فرمایا تھا۔ ’’ دسمبر میں حکومت کو نہیں دیکھ رہا ہوں۔ مگر دسمبر آیا اور گزر رہا ہے۔ محترمہ مریم نواز صاحبہ کو جنوری کے آگے حکومت جاتی نظر نہیں آ رہی ۔ یہاں شیر جوان فورس کا حلف نامہ یاد پڑ رہا ہے۔ بڑا دلچسپ ہے۔ شاہد خاقان عباسی صاحب نے فرمایا کہ اب حکومت سے نہیں اداروں سے بات ہو گی۔ کن اداروں سے ان کے بارے میں بھی حلف نامے میں کچھ لکھا گیا۔
میں خلفیہ اقرار کرتا / کرتی ہوںـ: -1 ووٹ کے تقدس کی بحالی کے لیے قیادت کے ہر پروگرام میں حاضر ہونے کا پابند اور مقاصد کے حصول تک قیادت کی ہر آواز پر ہمہ وقت تیار رہوں گا/رہونگی۔-2 ووٹ کی عزت کی خاطر ریاستی اداروں سے خوف کو پسِ پشت ڈالنے ٹکرائو سے دریغ نہیں کروں گا/کرونگی۔-3 ہر پروگرام میں نظم و ضبط کو پاکستانی قانون کے مطابق ملحوظِ خاطر رکھوں گا / گی۔-4 قیادت کے ہر فیصلے پر بغیر کسی سوال سرتسلیم خم کروں گا / گی۔-5 بیرونِ ملک علاج کے غرض سے مقیم قیادت کو زبردستی پاکستان لانے کے اقدامات کئے گئے تو اسکی مخالفت میں جیل جانے سے بھی پیچھے نہیںہٹوںگا / گی۔-6 سوشل میڈیا پر قیادت کے بیانیے کی تشہیر کے لیے ہر دم موجود رہوں گا / گی۔-7 کسی بیانیے یا فیصلے سے پیچھے ہٹنے کا اختیار صرف قیادت کے پاس ہو گا۔ میں ہر فیصلے کاخیرمقدم کروں گا/ گی ۔اس حلف نامے کی شق نمبر 2میں کیا پیغام ہے اس پر ذرا غور اور بی بی سی انڈین کرونکلز بھی ملاحظہ فرما لیجئے۔
اب بہت سے لوگوں کی نظریں مینار پاکستان پر پی ڈی ایم کے جلسے پر لگی ہیں۔ یہ جلسہ کتنا بڑاہو گا اس کافیصلہ جلسہ دیکھنے کے بعد کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ابھی آپ کر لیں۔ پی ڈی ایم کی 10 جماعتیں۔جی ہاں ! اب دس ہیں:۔ پی ٹی ایم کو مولانا نے دھکے دے کر نکال دیا یا پی ٹی ایم حقارت سے مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں اتحاد کو دھتکار کر چلی گئی۔ گلے مل کرتو وداع نہیں ہوئے ہونگے۔مگرایسا ہو بھی سکتا ہے کیونکہ ہماری سیاست میں شیر اور’ پی پی‘ ایک گھاٹ پہ پانی پی سکتے ہیں تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ بات جلسے کی جسامت اور ضخامت کی ہو رہی ہے۔ پی ڈی ایم والے اسے تاریخی جلسہ کہیں گے۔عمران خان کے اکتوبر 2011ء کے جلسے سے کہیں بڑا۔کہنے کو 1986ء میں بینظیر کا لاہور میں استقبال سے بھی بڑاکہنے سے نہیں ہچکچائیں گے لیکن پی پی پی نہیں مانے گی۔ عمران خان نے کہا ، یہ لوگ مل کر بھی ہم سے بڑا جلسہ نہیں کر سکتے۔ عمران خان جس جلسے کو بڑا کہہ رہے ہیں اس میں ن لیگ کی طرف سے تعداد 50 ہزار بتائی گئی تھی۔ اب حکومت بھی اس جلسے کے شرکاء کو 50 ہزار سے زیادہ مان کر نہیں دے گی۔ آپ جس کے ساتھ ہیں اسکے اعداد و شمار کو درست مان لیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں مولانا فضل الرحمن کو حکومت گرانے کی جلد ی ہے۔ کچھ کے خیال میں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ مولانا ہی ایک واحد شخص ہیں جو حکومت گرانے سے زیادہ اسکے خلاف تحریک کو طول دینا چاہتے ہیں۔ حکومت گری تو آج کی متحدہ اپوزیشن کی ’’دال بٹے‘‘ گی۔ گلگت میں کیوں ان پارٹیوں نے الگ الگ الیکشن لڑا۔
مولانا فضل الرحمن کے ایک طرف مریم نوازبیٹھی ن لیگ کی نمائندگی کرتی ہیں۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو بیٹھے ہوتے ہیں۔اس سے وہ منظر جاگزیں ہوجاتا ہے جب نوابزادہ نصراللہ خان مشرف کیخلاف تحریک میںانہی دو کلغی والی پارٹیوں کی حقے کی نے لہراتے ہوئے سربراہی کرتے تھے۔ تحریک انصاف کی حکومت ٹوٹتی ہے تو کیا مولانا وزیراعظم بنیں گے۔ ایسا ممکن نہیں ہے۔ مولانا کا آج پروٹوکول عرش معلیٰ پر ہے۔ جتنا دیر چلے اچھا ہے۔ پی ڈی ایم کے سیکرٹری اے این پی کے میاں افتخار ہیں۔ ان کی پریس کانفرنس بھی دھواں دارہوتی ہے جو دنیا بھر میں دیکھی جاتی ہے۔ ان کی مارکیٹ ویلیو بھی ساتویں آسمان پر ہے۔ وہ بھی کب چاہیں گے کہ پی ڈی ایم حکومت الٹا دے اور وہ ’’آنے والی‘‘ جگہ پرآ جائیں۔
جس اجلاس کے دوران آر یا پار کا فیصلہ ہونا تھا‘ اس سے کیا نکلا ’’حکومت سے مذاکرات نہیں ہونگے۔ 31 دسمبر تک استعفے قیادت کو جمع کرا دیں گے۔ لانگ مارچ کی ’’بتی‘‘ اگلے دن یعنی 9 دسمبر کو روشن ہوگی۔ 9 دسمبر کو بلاول صاحب نے فرمایا استعفوں کا فیصلہ پارٹی کی مشاورت سے کریں گے۔گویا باقی فیصلے پارٹی کی مشاورت سے ہوتے ہیں۔جنرل باجوہ سے صفدر اعوان کی گرفتاری کی تحقیقات کا مطالبہ بھی پارٹی کی مشاورت سے کیا تھا۔سندھ کے وزیروں کی کمیٹی نے کیا تحقیقات کی ہیں؟
یہ بھی سن لیں (ن) لیگ کے کچھ پُرجوش ایم این ایز اور ایم پی ایز نے استعفے پارٹی قیادت کو بھجوا دیئے۔کہا جاتا ان میں سے ایک میں پی ٹی آئی کے نام ضمنی الیکشن میں ٹکٹ دینے کی درخواست برآمد ہوئی۔ لفافہ بدل گیا۔ عمران خان کو اس کا استعفیٰ مل گیا ہوگا۔ یہ اگر فرضی بات بھی ہے تو بھی حقیقت سے قریب ہے۔ ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے۔ 9 دسمبر کو لانگ مارچ کی تاریخ دینی تھی۔ کہا گیا اس کا اعلان مصلحتاً نہیں کیا گیا۔ ایک روز قبل مصلحت کیا دلی جتنی دور تھی۔ (جاری)