• news
  • image

ہفتہ  ‘  26؍ ربیع الثانی ‘  1442ھ‘  12؍  دسمبر  2020ء

سارے چودھری مر جائیں ، فضل الرحمن کے نام
 قرعہ نہیں نکلے گا: شیخ رشید 
شیخ رشید کی بات تو سچ ہے ، لیکن مولانا فضل الرحمن بھی بڑے زیرک اور معاملہ فہم ہیں۔ وہ ’’گیلی زمین پر پائوں نہیں رکھتے‘‘تاہم وہ سیاست میں اپنا ’’حصہ بقدر جثہ‘‘ وصول کرنے کا فن خوب جانتے ہیں اور اگر کہیں ’’گھی سیدھی انگلیوں سے نہ نکلے‘‘ تو وہ انگلیاں ٹیڑھی کر کے بھی نکالنا جانتے ہیں ، موجودہ سیاسی منظرنامے میں بھی ان کو اپنی اہمیت کا خوب اندازہ ہے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ’’قرعہ‘‘ تو ان کے نام کا نہیں نکلے گا تاہم وہ اپوزیشن کی تحریک میں ’’بارہویں کھلاڑی ‘‘ بھی نہیں ہیں اس لیے۔
’’اس دور میں سب کچھ ممکن جان‘‘ کے مصداق کسی وقت بھی کوئی ’’بڑا اپ سیٹ‘‘ ہو سکتا ہے۔ ویسے آج کل تو ’’قرعہ‘‘ شیخ رشید کے نام ہی نکل رہا ہے۔ انہوں نے اطلاعات و نشریات اور ریلوے سمیت کئی وزارتوں کو نہ صرف ’’انجوائے‘‘ کیا ہے بلکہ اپنی انفرادیت اور خدا داد صلاحیتوں کو بھی خوب منوایا ہے جبھی تو اب وزارت داخلہ کا قلمدان ان کو تھمایا گیاہے جو نہ صرف ملکی سیاست سے ان کی شدت کے ساتھ وابستگی کا ثبوت ہے بلکہ ’’وفاداری بشرط استواری‘‘ کا مرہون منت بھی ہے گویا 
غم عاشقی تیرا شکریہ ، میں کہاں کہاں سے گزر گیا۔ 
بہرحال شیخ رشید کو نیا ’’قرعہ‘‘ مبارک ہو۔ 
اور محمد حسین آزاد کے بقول 
اک سخن ور کسی تارے کا تماشائی تھا 
اس کے دیدار کا دلدادہ و شیدائی تھا 
دل سے وہ چاند کا ٹکڑا اسے بھایا ہوا تھا 
اور وہی رات دن آنکھوں میں سمایا ہوا تھا 
اوجِ معنی سے مضامیں تھا اتارا کرتا 
اور انہیں اپنے ستارے پہ تھا وارا کرتا 
٭…٭…٭
برطانوی وزیر اعظم نے کسانوں کے احتجاج 
کو پاکستان بھارت کا مسئلہ قرار دیدیا 
تغافل ہر بڑے آدمی میں ہوتا ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ بورس جانسن لاعلم و بے خبر ہوں کہ بھارت میں کسانوں کا احتجاج اندرونی اور خالصتاً زراعت سے جڑا ہوا معاملہ ہے ، بس ذرا معاملے کا رخ پھیرنا ہوتا ہے۔ اس سے ایک طرف تو یہ تاثر دینا ہوتا ہے کہ ہمیں تمہارے معاملے سے بس اتنی سی دلچسپی ہے اور دوسرا میڈیا میں ’’خبر‘‘ بننا مقصود ہوتا ہے تاکہ معاملے کا رخ پلٹاجا سکے۔ جیسے ایک بار مظاہرین کے احتجاج پر ملکہ برطانیہ نے تبصرہ کیا تھا کہ لوگ احتجاج کیوں کر رہے ہیں، روٹی نہیں ملتی تو کیک پیسٹریز کھا لیں، یہی بات پرویز مشرف نے بھی کہی تھی۔ اسی طرح ’’قائد عوام‘‘ کے جلسہ میں ایک شخص نے جوتا لہرایا اور دکھایا تو وہ بھی معاملے کو ’’طرح دے گئے‘‘ کہ ’’ہاں ہاں  مجھے پتہ ہے ، جوتے مہنگے ہو گئے ہیں۔‘‘ اب بھارتی کسان برطانوی وزیر اعظم (بورس جانسن) سے کیا گلا کریں گے۔ انہوں نے تو ان کی ’’کسان بچائو‘‘ تحریک کہیں کا نہیں چھوڑا۔ عین ممکن ہے ، جب برطانیہ میں مقیم سکھ بورس جانسن کے سامنے معاملہ اٹھائیں تو وہ صفائیاں دینے لگیں کہ
 اساں جان کے میٹ لئی اکھ وے 
جھوٹی موٹی دا پا لیا ای شک وے 
سعودی سائنسدانوں کا پیدل چل کر بجلی پیدا 
کرنے کا دعویٰ
امت مسلمہ کو گزشتہ کئی صدیوں سے عربوں کی مصلحت کشی کا شکوہ رہا ہے، وسائل کی بھرمار کے باوجود سائنس و ٹیکنالوجی میں نمایاں ترقی نہ ہونے کے باعث بھی عربوں کو ’’کڑوی کسیلی‘‘ سننا پڑتی رہی ہیں ۔ ایجادات میں یورپی ملکوں کے بازی لے جانے پر بھی مسلم دنیاتنقید کی زد میں رہی ہے۔تاہم سعودی عرب کے دو نوجوان سائنسدانوں نے پیدل چلنے سے بجلی پیدا کرنے کا نیا اور انوکھا طریقہ ایجاد کرنے کا دعویٰ کر کے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ سعودی سائنسدانوں نے امریکی مرکز ایجادات میں  اپنا نظریہ بھی درج کرا دیا ہے۔ اب دیکھتے ہیں امریکی مرکز ایجادات سعودی سائنسدانوں کے نظریہ سے کیا سلوک کرتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ سقوط غرناطہ و بغداد کے موقع پر لائبریریوں سے ہاتھ لگنے والے علمی خزانے کی طرح سعودی سائنسدانوں کی ایجاد پر’’میڈ ان امریکہ‘‘ کی مہر لگ جائے۔ بہرحال اس انوکھی ایجاد اور منفرد تحقیق پر سعودی سائنسدان مبارکباد کے مستحق ہیں ، ویسے بھی ان کی تحقیق کوئی ’’اوپری‘‘ نہیں لگتی کیونکہ 
’’بجلی بھری ہے میرے انگ انگ میں‘‘
والی بات تو پہلے ہی زبان زد خاص و عام ہے ویسے بھی اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ہرچیز انسان کے لیے مسخر کر دی ہے گویا 
چاند ستارے قید ہیں سارے وقت کے بندی خانے میں 
لیکن میں آزاد ہوں ساقی ، چھوٹے سے پیمانے میں 
٭…٭…٭
ریلی میں مریم نواز پر نوٹوں کی بارش 
نوٹ نچھاور کرنے والے بھی بہت سیانے لگتے ہیں جنہوں نے صرف 100اور50 روپے کے نوٹ نچھاور کئے حالانکہ ان کے پاس 1000,500 ، 5 ہزار کے نوٹوں کی بھی کمی نہیںہوگی۔ اب پتہ نہیں یہ نوٹ جو نچھاور کئے گئے ہیں وہ مسلم لیگ (ن) کے جلسے کے لیے جمع کئے گئے چندے سے لئے گئے تھے یا کسی (ن) لیگی کارکن کاایثار تھا۔ ریلی میں لیگی کارکن ہی شریک تھے ، نوٹوں کی بارش بھی انہی پر برسی ہو گی یا نوٹ نچھاور کرنے والا اپنے اعزاو اقربا کو ساتھ لایا ہو گا کہ میں نوٹ نچھاور کرتا جائوں گا تم اکٹھے کرتے جانا۔ اگر یہ روایت قائم رہتی ہے تو (ن) لیگ کی ریلیوں میں محنت کش کھنچے چلے آئیں گے ، اس لیے لیگی کارکنوں کو چاہئے کہ مریم نواز سمیت کسی بھی لیگی رہنما کی آمد کے موقع پھول پتیاں نچھاور کرنے کی بجائے نوٹ نچھاور کریں تاہم ’’نیب‘‘ اور دیگر اداروں سے چھپ چھپا کر ورنہ لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں کیونکہ نوٹ دیکھ کر تو سب کا ’’موڈ‘‘ بن جاتا ہے اور ’’مینوں نوٹ وکھا میرا موڈ بنے‘‘ والے گیت نے تو پہلے ہی ہر شخص کو دل جیتنے کا ہنر سکھا دیا ہے۔ اس طرح ریلیوں اور جلسوں میں قائدین پر نچھاور کئے جانے والے نوٹ بھی حاضرین سمیٹ لیں گے اور پیسے د ے کر کسی کو جلسہ یا ریلی میں لانے کا الزام بھی نہیں آئے گا گویا 
رند کے رند رہے ، ہاتھ سے جنت نہ گئی 

epaper

ای پیپر-دی نیشن