استعفوں کی سیاست
ممتاز شاعر فانی بدایونی نے کہا تھا…؎
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
بات پہنچی تیری جوانی تک
پی ڈی ایم نے عوامی جلسوں کے جوش و خروش سے متاثر ہو کر اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے اور فیصلہ کیا ہے کہ 31 دسمبر تک پی ڈی ایم کی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اپنے استعفے پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن کے پاس جمع کرا دیں- مولانا کو یہ اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ جب مناسب سمجھیں اراکین اسمبلی کے استعفے اسپیکر قومی و صوبائی اسمبلی کو پیش کر دیں- تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ سب حکومت کو دباؤ میں لانے کے حربے ہیں - مارچ 2021 سینٹ انتخابات نے اپوزیشن جماعتوں کے لیڈروں کی راتوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں-ان کو یقین ہے کہ اگر مارچ میں سینٹ کے انتخابات ہو جائیں تو تحریک انصاف کو سینیٹ میں اکثریت حاصل ہو جائے گی- تحریک انصاف اپنی سیاسی منصوبہ بندی کے تحت آئینی ترامیم منظور کرا لے گی جس کے بعد عمران خان ایک مضبوط وزیراعظم بن کر سامنے آئیں گے اپوزیشن کیلئے ان کا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہو جائیگا-پی ڈی ایم کی جماعتوں کی شدید خواہش ہے کہ کسی نہ کسی طرح سینٹ کے الیکشن التواء کا شکار ہو جائیں-اپنی اسی خواہش کے پیش نظر انہوں نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے اور ان کا خیال ہے کہ ان استعفوں کے بعد سینیٹ کے انتخابات ممکن نہیں رہیں گے-پاکستان کے سیاستدان چونکہ سیاسی بصیرت اور بلوغت کے اعتبار سے معیاری نہیں ہیں اس لیے وہ اعلان پہلے کر دیتے ہیں اور اس اعلان کے نتائج کے بارے میں سوچتے بعد میں ہیں- قابل اعتماد ذرائع کے مطابق پی پی پی کے لیڈروں نے استعفوں کے بارے میں اپنے تحفظات اور خدشات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ فیصلہ کرنے سے پہلے ہمیں اسکے نتائج اور سیاسی مضمرات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرلینا چاہیے اور آئینی و قانونی ماہرین کے ساتھ مشاورت بھی کرنی چاہیے- مسلم لیگ نون چونکہ ڈو آر ڈائی Do or Die کی پالیسی پر گامزن ہے اس لیے وہ استعفوں کے بارے میں زور ڈال رہی ہے بقول مریم نواز "آر یا پار" کرنا چاہتی ہے- مولانا فضل الرحمان بھی استعفوں کے بارے میں بہت پر جوش ہیں-
راقم پی پی پی کا مرکزی سیکرٹری اطلاعات رہا ہے اس لیے تاریخ کا عینی شاہد ہے کہ جب جنرل ضیاء الحق نے 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کا اعلان کیا اس وقت محترمہ بے نظیر بھٹو لندن میں جلاوطن تھیں اور تحریک استقلال کے چیئرمین ایئر مارشل اصغر خان ایم آر ڈی کی صدارت کر رہے تھے- محترمہ بینظیر بھٹو نے ان کو فون کرکے زور دیا کہ ہمیں سیاسی میدان کسی صورت خالی نہیں چھوڑنا چاہیے اور غیر جماعتی انتخابات میں بھی حصہ لینا چاہیے-محترمہ کا خیال تھا سیاست میں ایسے افراد آ جائینگے جن کا تعلق کسی سیاسی جمہوری جماعت کے ساتھ نہیں ہو گا- افسوس ایم آر ڈی کے لیڈروں نے نظیر بھٹو کی رائے سے اتفاق نہ کیا اور انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا گیا جس کا پی پی پی سمیت سب سیاسی جماعتوں کو ناقابل تلافی نقصان برداشت کرنا پڑا- ایسے غیر سیاسی لوگ سیاست میں آگئے جنہوں نے سیاست کو تجارت اور پیسے کا کھیل بنا دیا-پی پی پی کی مستقل پالیسی یہ ہے کہ وہ آئندہ کسی صورت سیاسی میدان کو کھلا نہیں چھوڑے گی-پی پی پی کی سندھ میں حکومت ہے وہ کسی صورت استعفیٰ نہیں دیگی اور خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی نہیں مارے گی- پاکستان کے نامور آئینی اور قانونی ماہرین ایس ایم ظفر اعتزاز احسن سابق اٹارنی جنرل اشتراوصاف کی رائے ہے کہ اگر پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتوں کے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی اپنے استعفے دے دیں تو اسکے باوجود وہ سینٹ کے انتخابات کو نہیں روک سکتے- اپوزیشن کے استعفوں کے بعد بھی حکومت کے پاس اس قدر اراکین پارلیمنٹ کی عددی اکثریت موجود ہو گی کہ آئین اور قوانین کے مطابق سینٹ کے انتخابات مکمل ہوجائینگے- سندھ کی صوبائی اسمبلی توڑ دی جائے تو سندھ کے سینیٹرز کے انتخابات التوا میں پڑ جائینگے جبکہ باقی اسمبلیوں کے سینیٹر منتخب ہو جائینگے-ایک آئینی ماہر کے مطابق اگر حکمران جماعت کے اتحادی بھی اپوزیشن کے ساتھ مل جائیں اور استعفے دے دیں تو اس صورت میں سینیٹ کے انتخابات کیلئے مطلوبہ اراکین اسمبلی موجود نہیں ہونگے اور سینیٹ کے انتخابات میں قانونی رکاوٹیں کھڑی ہو جائیں گی-
پاکستان کے عوام کو یاد ہے کہ 2014 میں تحریک انصاف کے اراکین پارلیمنٹ نے بھی اپنے استعفے سپیکر کو پیش کر دیئے تھے جن کو منظور نہیں کیا گیا تھا - اٹھارویں ترمیم میں آئین کے ایک آرٹیکل میں یہ شق شامل کی گئی تھی کہ کسی بھی رکن اسمبلی کا استعفیٰ اس وقت تک منظور نہیں ہوگا جب تک سپیکر تسلی نہ کر لے کہ استعفی کسی دباؤ کے نتیجے میں نہیں بلکہ آزادانہ رائے سے دیا گیا ہے-اگر اپوزیشن کی جماعتیں اپنے اراکین اسمبلی کے استعفے اسپیکرقومی اسمبلی کے سامنے پیش کر دیں تو تحریک انصاف بھی ایسا حربہ استعمال کر سکتی ہے اور اس مسئلے کو التوا میں ڈال سکتی ہے لہذا استعفوں کی سیاست ڈرامے کے سوا کچھ نہیں ہے-محترمہ بے نظیر بھٹو نے 2008 کے انتخابات سے پہلے ایک کتاب تحریر کی تھی جس کا نام "مفاہمت" رکھا تھا اپنی اسی مفاہمانہ پالیسی کے مطابق انہوں نے مسلم لیگ نون کے ساتھ میثاق جمہوریت پر دستخط بھی کیے تھے ان کا خیال تھا کہ پاکستان کے قومی اور عوامی مسائل مزاحمت نہیں بلکہ مفاہمت کی پالیسی پر عمل کرکے ہی حل کئے جا سکتے ہیں - اپنی شہید لیڈر کی اس پالیسی کے مطابق پی پی پی کسی صورت مزاحمت کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے کوئی انتہا پسندانہ اقدامات نہیں اٹھائے گی- حکمران اشرافیہ نے سوچی سمجھی سکیم کے تحت قوانین کو شفاف اور واضح نہیں رکھا تاکہ ان کو اپنے سیاسی ایجنڈے کے مطابق استعمال کیا جا سکے- سیاست دانوں کے قول و فعل کا تضاد آئے روز عوام کے سامنے آتا رہتا ہے مگر افسوس پاکستان کے عوام اسے نظر انداز کر دیتے ہیں- مسلم لیگ ن کے مرکزی لیڈر میاں محمد نواز شریف نے واضح طور پر یہ اعلان کیا تھا کہ وہ کسی صورت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بات چیت نہیں کرینگے اب مسلم لیگ نے سیاسی مصلحتوں کے تحت اپنے اس بیانیے کو تبدیل کر لیا ہے- مسلم لیگ نون کا نیا موقف یہ ہے کہ وہ وزیراعظم کے ساتھ مذاکرات نہیں کرینگے البتہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کرنے کیلئے تیار ہیں- یہ سیاسی بیانیے کا کھلا تضاد ہے جس پر پاکستان کے عوام کو سنجیدہ توجہ دینے کی ضرورت ہے-پی ڈی ایم کا دوسرا کھلا تضاد یہ ہے کہ ایک جانب وہ یہ موقف اختیار کر رہی ہے کہ اپوزیشن جمہوریت کو مستحکم کرنے کیلئے تحریک چلا رہی ہے مگر دوسری جانب وہ ایسے راستے پر گامزن ہے جو جی ایچ کیو کی طرف جاتا ہے- اگر پی ڈی ایم کی سیاسی جماعتوں اور حکمران جماعت نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو ملک کے اندر ایسا سیاسی بحران پیدا ہو سکتا ہے کہ جس سے غیر منتخب غیر جمہوری اور غیر سیاسی طاقتیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں جس کی ذمہ داری سیاستدانوں پر ہی ڈالی جائیگی-استعفوں کی سیاست کار گر نہیں ہو گی- سیاست دانوں کی نا اہلی اور بدنیتی کی وجہ سے سیاسی گیند اسٹیبلشمنٹ کی کورٹ میں چلی جائیگی۔