ماضی سے سبق سیکھیں
بھٹو صاحب نے اقتدار میں آکر ایف ایس ایف بنائی اور مبینہ طور پر انہوں نے یہ تاثر دیا کہ یہ فورس ان کے تمام احکامات مانے گی تو اس طرح ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکے گا اور یہ فورس ان کے اقتدار کے تحفظ کی ضامن ہوگی۔احمد رضا قصوری الیکشن میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے لیکن پارلیمنٹ میں پہنچ کر وہ تحریک استقلال میں شامل ہوکر اپوزیشن نشستوں پر بیٹھ گئے اور پارلیمنٹ میں وہ پرجوش انداز میں حکومت کی مخالفت کرتے تھے اور پارلیمنٹ سے باہر ایئر مارشل اصغر خان حکومت کو ٹف ٹائم دیتے تھے لیکن احمد رضا قصوری نے پارلیمنٹ میں اپنی پرجوش تقریر میں نازیبا الفاظ استعمال کئے اور اس کے بعد مبینہ طور پر بھٹو صاحب نے ایف ایس ایف کے سربراہ کو احمد رضا قصوری کو ’’لگام‘‘ دینے کا حکم دیا اور ان پر لاہور میں حملہ کیا گیا جس میں احمد رضا قصوری خود تو بچ گئے لیکن ان کے والد اس حملے میں ہلاک ہوگئے جس کا مقدمہ بھٹو صاحب کے خلاف درج کرایا گیا اور جب بھٹو صاحب اقتدار سے محروم ہوئے تو اسی مقدمے میں انہیں سزائے موت دے دی گئی اور ایف ایس ایف کے سربراہ نے بیان دیا کہ بھٹو صاحب کے حکم پر سب کچھ کیا گیا لیکن بھٹو صاحب کی یہ فورس انہیں نہ تو اقتدار سے محروم ہونے سے بچاسکی اور نہ ہی سزائے موت سے۔ اس طرح کی فورس کی ماضی میں بھیانک مثال موجود ہے۔
اسی طرح جب بھٹو صاحب وزیراعظم تھے اور شاہ محمود قریشی کے والد صاحب گورنر پنجاب تھے تو ایک رات سرکاری دورے پر ان کا قیام ملتان میں ہوا اور صبح شاہ محمود قریشی کے والد صاحب نے بھٹو صاحب کو کہا کہ ’’کیا آپ کو علم ہے کہ رات بھر آپ کی حفاظت کے لئے کون یہاں موجود رہا؟‘‘ تو بھٹو صاحب کے استفسار پر شاہ محمود قریشی کے والد نے بتایا کہ کورکمانڈر ملتان جنرل ضیاء الحق رات بھر آپ کی حفاظت کے لئے یہاں موجود رہے۔ اس کے بعد جب آرمی چیف کی تقرری کا وقت آیا تو بھٹو صاحب نے کم و بیش 10جرنیلوں پر ضیاء الحق کو سپرسیڈ کرکے آرمی چیف بنایا اور دلی طور پر وہ مطمئن تھے کہ اس سے زیادہ میرا وفادار آرمی چیف کوئی اور نہیں ہوسکتا لیکن تاریخ میں درج ہے کہ ضیاء الحق کی وفاداری بھی بھٹو صاحب کو نہ بچا سکی۔
اب اپوزیشن نے تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کا آغاز گوجرانوالہ میں جلسے سے کیا ہے اور اس جلسے کو ناکام بنانے کے لئے پنجاب حکومت نے ایک ہفتہ پہلے سے ہی لوڈ کنٹینرز لگاکر روڈ بلاک کرنا شروع کردیئے تھے ۔ یہ پہلی حکومت ہے جس کے دور میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لئے لوڈ کنٹینرز کو روکا جاتا ہے۔ پہلے مولانا فضل الرحمان کے دھرنے میں رکاوٹیں ڈالنے کے لئے بھی ہفتہ بھر پہلے سے لوڈ کنٹینرز پکڑے گئے اور اب دوبارہ یہی عمل دہرایا گیا۔ حکومت نے رکاوٹیں کھڑی کرکے پوری کوشش کی کہ اپوزیشن قائدین تاخیر سے جلسہ گاہ پہنچیں تاکہ جلسہ ناکام ثابت ہو لیکن عوام نے قائدین کی تقریروں تک جلسہ گاہ میں موجود رہ کر حکومت کی حکمت عملی کو ناکام کردیا۔
اپوزیشن کے گوجرانوالہ جلسے میں میاں نوازشریف نے سپہ سالار کے خلاف باتیں کیں جسے بھارتی میڈیا نے بڑھا چڑھاکر پیش کیا ۔ گوجرانوالہ جلسے کے اگلے دن وزیراعظم عمران خان نے اپنی بنائی گئی ’’ٹائیگر فورس‘‘ سے جوشیلے انداز میں خطاب کرکے میاں نوازشریف کو واضح طور پر واپس لاکر عام جیل میں ڈالنے کا اعلان کیا اور وزیراعظم کی ٹائیگر فورس کے سامنے اس طرح کی جوشیلی تقریر سن کر مجھے بھٹو صاحب کی ایف ایس ایف یاد آگئی۔ مجھے بالکل اسی طرح محسوس ہوا جیسے ٹائیگر فورس بناکر ان نوجوانوں کے سامنے اس طرح کی جوشیلی تقریر کرنے کا مقصد ایک پیغام دینا ہے کہ میرے پاس نوجوانوں کی ایسی فورس موجود ہے جو نہ صرف میرے اقتدار کا تحفظ کرے گی بلکہ میرے حکم پر سب کچھ کر گزرنے کو تیار ہوگی۔وزیراعظم نے اپنی تقریر میں یہ بات بھی کہی کہ خواجہ آصف الیکشن میں ہار رہے تھے تو انہوں نے جنرل باجوہ کو فون کرکے الیکشن میں جتوانے کی درخواست کی۔ اس بیان سے تو اپوزیشن کی بات پر مہر تصدیق خود وزیراعظم نے ثبت کردی کہ الیکشن میں خدانخواستہ فوج کا کوئی کردار تھا۔ اسی طرح کی باتوں سے ہی حکومت گرداب میں پھنستی چلی جارہی ہے اور فوج کے لئے بھی حالات سنبھالنا مشکل بنادیا گیا ہے۔
اپوزیشن تحریک کے کراچی میں دوسرے جلسے کے روز مزار قائد کے احاطے کے باہر مبینہ طور پر ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگے جس پر جلسے کے اگلے روز کیپٹن صفدر کے خلاف مقدمہ درج کرکے انہیں اس انداز میں گرفتار کیا گیا جس سے میڈیا میں تاثر پیدا ہوا کہ یہ ’’ٹائیگر فورس کی پہلی کارروائی‘‘ تھی۔ اگر کیپٹن صفدر کے خلاف مقدمہ درج ہوا تھا تو انہیں آپ گرفتاری دینے کا کہتے وہ خود آپ کے ساتھ چلے آتے لیکن گرفتاری کے لئے دروازے توڑنا اور پولیس کے روایتی رویئے کو اپنانا کسی طرح بھی درست نہیں تھا۔ کیپٹن صفدر کے خلاف ہونے والی کارروائی کے بعد بھی مجھے بھٹو صاحب کی فورس اور اس کے انجام کی طرف جاتے ہوئے حالات محسوس ہوئے۔ خدارا حکومت ہوش کے ناخن لے کیونکہ اس طرح کی کارروائیاں اپوزیشن کی مقبولیت میں مزید اضافے کا سبب بنتی ہیں۔ بھٹو صاحب کے دور میں اپوزیشن لیڈر چوہدری ظہور الٰہی کے خلاف بھینس چوری کا مقدمہ بنایا گیا اور انہیں گرفتار کرکے سندھ کی جیل میں رکھا گیا۔ نہ بھٹو صاحب کا وہ رویہ درست تھا اور نہ ہی اب جو طرز عمل کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے وقت اپنایا گیا‘ اسے درست کہا جاسکتا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 77ء کی تحریک کے دوران جب ایئرمارشل اصغر خان کے ہمراہ ہم مزار قائد پر حاضری دیتے تھے تو احاطے کے باہر سیاسی نعرے بازی ہوتی تھی۔
ماضی کے واقعات اسی لئے دہرانا ضروری ہوگیا ہے کہ اپوزیشن اپنی تقریروں میں اداروں سے ٹکراؤ لیکر بھی اچھا نہیں کر رہی اور حکومت کی جانب سے بھی غیر مناسب رویہ اور ’’ٹائیگر فورس‘‘ کے سامنے پرجوش تقریرکرکے نوجوانوں کو اپوزیشن کے خلاف غلط طرز عمل کے لئے اکسانا بھی درست نہیں اور نہ ہی کراچی میں کیپٹن صفدر کو مناسب طریقے سے گرفتار کیا گیا۔ اس وقت سب سے زیادہ ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ ٹکراؤ کی پالیسی سے اجتناب کرے اور اپوزیشن بھی اداروں سے ٹکراؤ کی پالیسی اختیار کرکے دشمن ملک بھارت کی آلہ کار نہ بنے ۔ خدانخواستہ اگر حالات کو خرابی کی طرف لے جایا گیا تو ماضی میں بھٹو صاحب کو نہ تو ان کی ایف ایس ایف بچاسکی اور نہ ہی وفادار ترین جرنیل ضیاء الحق ان کے کام آسکے اور نہ ہی ٹائیگر فورس موجودہ حکومت کو بچا سکے گی۔