کاون ہاتھی کی منتقلی پر ہمیں فخر ہونا چاہیے کریڈٹ وزیراعظم کو جاتا ہے
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ)چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہے عدالت کریڈٹ نہیں لیتی، کاون ہاتھی کی منتقلی کا کریڈٹ وزیراعظم کو جاتا ہے۔چڑیا گھر کے ریچھوں کی منتقلی کا ایکسپورٹ پرمٹ منسوخ کرنے پر توہین عدالت کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں ہوئی۔دوران سماعت عدالت نے کہا کہ ہمیں آگاہ کیے بغیر ایکسپورٹ پرمٹ منسوخ اور ریچھوں کو بیرون ملک منتقل نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا، کل (بروز جمعرات) سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی اور چیئرپرسن اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کا رویہ نامناسب تھا۔چیف جسٹس اسلام آباد اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ شیروں کے ساتھ جو ہوا وہ کوئی معمولی بات نہیں، اس وقت بورڈ، میئر اور وزارت موسمیاتی تبدیلی میں آپس میں چپقلش تھی۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ کاون ہاتھی کی منتقلی پر ہمیں فخر ہونا چاہیے جس کی عالمی سطح پر پذیرائی ہوئی۔وکیل سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی نے کہا کہ کاون کی منتقلی کا کریڈٹ اس عدالت کو جاتا ہے، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ کریڈٹ وزیراعظم کو جاتا ہے، عدالت کریڈٹ نہیں لیتی۔عدالت نے استفسار کیا کہ وزارت موسمیاتی تبدیلی کو ذمہ داری دی تھی کہ بتایا جائے شیروں کی ہلاکت کا کون ذمہ دار ہے؟وکیل نے کہا کہ پاکستان میں کوئی سینچوری نہیں اس لیے ریچھوں کو اردن منتقل کرنے کا پرمٹ جاری کیا گیا، اسی دوران ایوب نیشنل پارک نے دونوں ریچھوں کو اپنے پاس رکھنے پر رضامندی ظاہر کی۔عدالت نے کہا کہ دونوں ریچھ ایک چڑیا گھر سے نکال کر دوسرے میں رکھنا بھی عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی ہے۔وکیل سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی نے کہا کہ ایم سی آئی، وائلڈ لائف بورڈ اور وزارت میں 4 سال سے لڑائی چل رہی تھی، جس پر عدالت نے کہا کہ اسی لڑائی کو دیکھ کر چڑیا گھر کی ذمہ داری وزارت موسمیاتی تبدیلی کو دی تھی، وزارت موسمیاتی تبدیلی کے چارج کے دوران دونوں شیروں کی ہلاکت ہوئی۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ وزارت موسمیاتی تبدیلی نے عدالت سے غلط بیانی کی۔چیئر پرسن اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کا کہنا تھا ہم نے ریچھوں کی منتقلی کیلئے ٹکٹس بک کرا رکھے تھے لیکن ایکسپورٹ پرمٹ منسوخ کر دیا گیا۔ڈاکٹر عامر خلیل کا کہنا تھا اردن میں سینچوری میں بہتر دیکھ بھال ہو سکتی ہے، ہم 4 ہزار فٹ بلندی پر ایک سینچوری بنانا چاہتے ہیں جہاں انہیں رکھا جائے گا، ریچھ فٹبال نہیں کہ انہیں ابھی باہر بھجوائیں اور پھر 6 ماہ بعد واپس لائیں۔