وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے ترقیاتی منصوبے اور پی ڈی ایم کا جلسہ!!!
وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار نے لاہور میں تاریخی ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے دور حکومت میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا گیا ہے۔ یقینی طور پر یہ تمام منصوبے شہر کی ضرورت سمجھے جا رہے تھے تھے۔ بڑھتے، پھیلتے ہوئے شہر اور شہریوں کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے ان منصوبوں کو وقت کی ضرورت کہا جاسکتا ہے۔ لگ بھگ سوا دو سال دو سال تک منصوبہ بندی کرنے کے بعد پنجاب حکومت نے بڑے پیمانے پر ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔ ان ترقیاتی منصوبوں کی تشہیر بھی کی جا رہی ہے۔ فردوس عاشق اعوان کے پنجاب میں آنے کے بعد وزیراعلی سردار عثمان بزدار ان کی سرگرمیوں میں حیران کن طور پر اضافہ ہوا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے فردوس عاشق اعوان کو جس مقصد کے لیے پنجاب بھیجا انہوں نے ہدف حاصل کرنے کے لیے اچھا آغاز کیا ہے۔ گورنر ہاؤس میں چودھری محمد سرور کو باؤلنگ کرنے، فٹبال کک لگانے کے بعد وہ وزیر اعلیٰ کی کارکردگی کو بھی میڈیا کے سامنے رکھنے میں کامیاب نظر آ رہی ہیں۔ وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کی میڈیا کے ساتھ بات چیت، لوگوں کے ساتھ میل جول جو مختلف تقریبات میں شرکت یا پھر ہر روز کوئی ایونٹ بنانا فردوس عاشق اعوان کی پالیسی ہے۔ یقینی طور پر یہ گائیڈ لائن وزیراعظم عمران خان کی طرف سے دی گئی ہے کیونکہ کپتان یہ سمجھتے ہیں کہ پنجاب میں کام تو اچھا ہو رہا ہے لیکن سردار عثمان بزدار کے اچھے کاموں کی مناسب تشہیر نہیں ہو رہی۔ جس وجہ سے پنجاب حکومت کی کی اصل کارکردگی عوام کے سامنے نہیں پہنچ رہی۔ یہ ایک نقطہ نظر ہے اس سے اتفاق کرنا یا اختلاف رکھنا ہمارے قارئین کا حق ہے لیکن جن ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا گیا وہ قابل تعریف ہیں۔ ان منصوبوں کے لیے سب سے پہلا ہدف منصوبوں کی اپنے دور حکومت میں تکمیل ہے۔ یہ بڑے منصوبے ہیں اگر پاکستان تحریک انصاف آنے والے تیس ماہ میں ان منصوبوں کو مکمل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو پھر منصوبوں کے آغاز کے بعد بڑی کامیابی اپنے دور حکومت میں ان کی تکمیل ہی ہوگی۔
دو سال تک پنجاب حکومت کو اس حوالے سے خاصی تنقید کا سامنا رہا ہے کہ انہوں نے ترقیاتی منصوبوں پر توجہ نہیں دی۔ کسی حد تک یہ بات درست بھی ہے کیونکہ دو سال تک حکومت کی جانب سے ترقیاتی منصوبوں کی تعداد یاد یا ایسے منصوبوں پر توجہ ذرا کم رہی ہے لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ پر حقیقت ہے کہ ملک کے معاشی حالات اتنے کمزور ہیں اور قرضوں کی وجہ سے حکومتوں کے لیے روز مرہ کے معمولات چلانا ہی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ہر وقت قرضوں پر انحصار اور ماضی کی کمزور معاشی پالیسیوں کی وجہ سے حالات اس حد تک خراب ہوئے ہیں کہ ہمیں سب سے اہم دفاع کے شعبے پر بھی سمجھوتے کرنا پڑے ہیں۔ جھوٹی معیشت جھوٹے اعداد و شمار اور اور مصنوعی ترقی نے ملک کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ بہتر مستقبل کے لئے لیے قرضوں پر انحصار کم سے کم کرنا، امپورٹ کم کرنا اور ایکسپورٹ کا مسلسل بڑھتے رہنا ہی ملک کی ترقی کی ضمانت ہے۔ بہت ساری ایسی چیزیں ہیں ہیں جو روز مرہ کے معاملات میں عوام کے لیے فائدہ مند نہیں ہے لیکن ملک و قوم کے بہتر مستقبل کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ ان شعبوں میں حکومت نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے لیکن عام آدمی کے مسائل نظر انداز ہونے اور عام آدمی کی زندگی مشکل ہونے کی وجہ سے دیگر شعبوں میں بہتر کارکردگی بھی اشیاء خوردونوش اور مہنگائی کے بوجھ تلے دبی ہوئی نظر آتی ہے۔
وزیراعظم اگر یہ کہتے ہیں کہ تمام اشاریے درست ہیں ہیں تو اپنی بات میں حق بجانب ہیں کیونکہ ترسیلات زر، درآمدات و برآمدات کے جو اعداد و شمار ان تک پہنچائے جاتے ہیں، تعمیراتی شعبے میں جو تیزی ہے۔ ملک میں امن وامان کی جو صورت حال ہے اور کرونا میں مشکل ترین حالات کے باوجود اللہ کی رحمت سے پاکستان بہت بڑے مسائل یا نقصان سے بچا رہا۔ اس صورتحال میں وزیراعظم عمران خان کے موقف میں جان ضرور نظر آتی ہے لیکن عوامی مسائل حل نہ ہونے کی وجہ سے حکومت کی باتوں پر یا وزیراعظم عمران خان کے وزیران اور مشیران کے بیانات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا ان کی باتوں پر اعتبار نہیں کیا جاتا لیکن اس کے باوجود یہ کہا جاسکتا ہے کہ عام آدمی کے مسائل کے علاوہ دیگر کئی شعبوں میں حکومت نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ پنجاب حکومت نے سوا دو سال تک تو ترقیاتی منصوبوں میں اور بالخصوص لاہور میں کوئی خاص کام نہیں کیا لیکن حالیہ دنوں میں بڑے پیمانے پر ترقیاتی منصوبوں کے اعلان نے سوا دو سال کی کسر نکال دی ہے۔ اب ان منصوبوں کے اعلان کے بعد یہ نہیں ہونا چاہیے کہ جیسے پنجاب حکومت نے فائلوں کی تیاری میں سوا دو سال لگا دیے ہیں اگر اسی رفتار کے ساتھ ان منصوبوں کا آغاز ہوا اور ان پر کام ہوا تو پھر سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ اگر حکومت چاہتی ہے کہ وہ قن ترقیاتی منصوبوں کا کریڈٹ لے اور لاہوریوں کی زندگی میں آسانی پیدا کر سکے تو پھر ان منصوبوں کی بروقت تکمیل ہی سب سے اہم ہے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے جلسوں کے سلسلے میں آج ایک میدان لاہور میں لگ رہا ہے جس میں سیاسی جماعتوں کی پوری کرکٹ ٹیم مینار پاکستان میں نیٹ پریکٹس کرتے نظر آئے گی۔ اب نیٹ پریکٹس کا فوری طور پر تو کوئی فائدہ ہوتا نہیں ہے یہ آنے والے میچ کی تیاری ہوتی ہے یا پھر اپنی خامیوں کو چھپانے یا غلطیوں سے جان چھڑانے کی کوشش ہوتی ہے۔ فوری طور پر نیٹ پریکٹس سے کوئی بھی نتیجہ سامنے نہیں آتا۔ یہی صورتحال پاکستان ڈیمو کریٹک کے جلسوں کی ہے۔ چونکہ یہ صرف نیٹ پریکٹس ہے اور اس نیٹ پریکٹس میں بھی فکسنگ شامل ہے اس لئے اس سیاسی مشق جدوجہد یا پھر جلسہ فکسنگ سے کوئی نتیجہ سامنے آنے کا امکان نہیں ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان ڈیمو کریٹک کی پوری کی پوری ٹیم اور ان کے تماشائی مینار پاکستان خالی ہاتھ جائیں گے اور خالی ہاتھ واپس آئیں گے۔ پاکستان مسلم لیگ نون ن پاکستان پیپلز پارٹی بخوبی طور پر پر واقف ہیں کہ عام انتخابات 2023 میں ہوں گے اور اس سے پہلے حکومت میں تبدیلی یا پارلیمنٹ میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یہ حقیقت جاننے کے باوجود ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں خود کو زندہ رکھنے کے لیے ملکی مسائل کو پس پشت ڈال کر سیاست کو بچانے کے لئے میدان عمل میں ہیں اور اس سلسلے میں میں پاکستان کے اندرونی اور بیرونی مسائل کو بھی نظر انداز کر رہی ہیں۔ پاکستان کو بیرونی دنیا میں جن مسائل کا سامنا ہے وہ ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ پاکستان اپنے دیرینہ دوستوں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ سفارتی راستے جدا کر کے ایک اور سفر پر نکلا ہے اس سفر میں میں مشکلات آ رہی ہیں۔ پاکستان کو سفارتی سطح پر بھی مسائل کا سامنا ہے اور ہمارے ازلی دشمن کی تخریںی کارروائیاں بھی عروج پر ہیں۔ پاکستان کے دشمن یہاں عدم استحکام کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ان حالات میں پی ڈی ایم کا سڑکوں پر رونا دھونا ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے اور وہ بھی اس صورت میں کہ جب سیاسی جماعتیں یہ جانتی ہیں کہ اس مشق کا کوئی حتمی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ یہ بھی تمام سیاسی جماعتیں جانتی ہیں کہ فیصلہ ساز ادارے ریاست کے وسیع تر مفاد میں یہ فیصلہ کرچکے ہیں کہ حکومت کسی کی بھی ہو وزیراعظم کوئی بھی ہو، وہ جو حکومت کر چکے ہیں وہ جو حکومت کر رہے ہیں اور وہ جو آنے والے وقت حکومت کرے گا کوئی بھی غلط کرے گا وہ اپنے اعمال کی سزا بھگتے گا کسی کو کوئی این آر او نہیں ملے گا۔ لوٹ مار اور کرپشن کا دور واپس نہیں آ سکتا۔ کمزور معاشی پالیسیوں، کرپشن اور قرضوں کے جال کی وجہ سے آج ہم اس حال تک پہنچ چکے ہیں کہ کسی کو آنکھیں دکھانے کے قابل بھی نہیں رہے۔ ہم نے اپنے دفاع پر بھی سمجھوتے کیے ہیں اور یہ سب ماضی کے ان حکمرانوں کا کیا دھرا ہے جو خود کو جمہوریت کا عالمی چیمپیئن سمجھتے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر اپنا سیاسی مستقبل بچانے کے لیے عوام کے جذبات سے کھیلتے ہوئے عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فیصلہ عوام نے کرنا ہے کہ اس نے آزمائے ہوئے، ناکام سیاست دانوں اور منی لانڈرنگ کے ماہرین کو کیسے جواب دینا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نون نے لاہور کے جلسے کو کامیاب بنانے کے لیے بڑی کوشش کی ہے لیکن اس کوشش میں ان کا بھرپور ساتھ پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت نے بھی دیا ہے۔ ایسی پکڑ دھکڑ، گرفتاریاں درحقیقت اپوزیشن کی مدد غیر محسوس انداز میں مدد ہے تاکہ بیرونی دنیا یہ جان سکے کہ پاکستان کس حد تک سیاسی عمل پر یقین رکھتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اپنی سرگرمیوں کی بھی اجازت ہے اور حکومت اپنے شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے میں بھی نہایت سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ ایسی سیاسی سرگرمیاں وزیر قانون کی موجودگی کا پتہ بھی دیتی ہیں کیونکہ اگر اپوزیشن کوئی سیاسی سرگرمی نہ کرے تو پنجاب کے وزیرِ قانون کو بھی کوئی کام کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ جب کبھی کوئی سیاسی سرگرمی ہوتی ہے تو اس بہانے وزیر قانون کو بھی دیکھنے کا موقع ملتا ہے ورنہ وہ تو رمضان یا عید کا چاند ہی معلوم ہوتے ہیں جن دیکھنے کے لئے لیے سال بھر انتظار کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے آج ہونے والے جلسے کے لیے نیک دعائیں ہیں کیونکہ جس انداز میں خطرے کی خبریں سامنے آئی ہیں۔ اس صورت حال میں کسی ناخوشگوار واقعے کے بغیر آج اس جلسے کا انعقاد مینار پاکستان سے واحد اچھی خبر ہو گی۔ اللہ اس ملک کو اندرونی و بیرونی حاسدوں اور دشمنوں سے محفوظ رکھے۔( آمین)