کرونا کے باعث سال2020تعلیم کے حوالے سے بہت بھاری ثابت ہوا
اسلام آباد(چوہدری شاہداجمل) سال 2020 تعلیم کے حوالے سے بہت بھاری ثابت ہواہے،، کورونا کے باعث تعلیمی اداروں کی مسلسل بندش،امتحانات کے بغیر طلبا کو پروموٹ کرنے کی پالیسی اور آن لائن تعلیم کے حصول میں رکاوٹوں جیسے مسائل پاکستان بالخصوص وفاقی دارالحکومت کا سب سے بڑا تعلیمی مسئلہ رہے ہیں، حکومتی پالیسیوں،وزارت تعلیم کی عدم توجہ اور وزیر تعلیم سمیت وزارت کے بابووں کی روایتی بے حسی ختم نہ ہوسکی،تعلیمی اداروں کی بندش سے وفاقی دارالحکومت کے سرکاری و نجی تعلیمی اداروں کے ہزاروں طلبا کا تعلیمی سال ضائع،نجی شعبہ ہے ہزاروں اساتذہ بے روزگار،پک ڈراپ،سٹیشنری کا سامان فروخت کرنے اور کنٹین کا کاروبار کرنے والے ہزاروں گھروں کے چولہے بھی بجھ گئے،بغیر امتحان کے پاس ہونے سے تعلیمی معیار بھی کم جبکہ متعددقانونی مسائل بھی پیدا ہورہے ہیں۔ سال2020 میں بھی وفاق کے تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی قلت رہی جبکہ ڈیلی ویجز و کنٹریکٹ تدریسی و غیر تدریسی عملہ کی مستقلی کا مسئلہ بھی حل نہیں ہوسکاہے۔تفصیلات کے مطابق ماضی کے برعکس سال2020 تعلیمی حوالے سے بدترین سال رہاہے جس میں نہ تو مکمل کلاسز ہوئیں،نہ سکول کھلے،نہ اساتذہ کے مسائل حل ہوئے،نہ نصاب بنا،نہ ہی مدارس کی رجسٹریشن کا عمل مکمل ہوسکا الٹا بغیر امتحان کے ہزاروں بچوں کو پروموٹ کرنے سے تعلیمی معیار کا بیڑا غرق کردیا گیاہے۔ ذرائع کے مطابق وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کی عدم توجہ اور تعلیم کی بجائے دیگر سیاسی سرگرمیوں میں زیادہ مصروفیت بھی تعلیمی بدحالی کا باعث بنی ہے،سال 2020 کورونا کے باعث مسائل کا شکار تو رہاہی ہے لیکن وزارت تعلیم کی روایتی بے حسی نے بھی اس مسئلہ کو بڑھاوا دیاہے۔اس سال وفاقی سطح پر بڑی پیش رفت،وفاقی نظامت تعلیمات کے مستقل ڈی جی،فیڈرل بورڈ اور آئی بی سی سی کے چیئرمینز کی تعیناتی،چیئرپرسن پیرا کی تعیناتی وزارت کے بہتر اقدامات گنے جاسکتے ہیں،تاہم نصاب سازی میں تاخیر،مدارس کی رجسٹریشن نہ ہونا،کورونا ایس او پیز پر عمل نہ ہونے سے اداروں کی باربار بندش،کتب کی عدم فراہمی، کلاسز کا انعقاد نہ ہونا،ٹرانسفرپوسٹنگ میں پسند نہ پسند کا عمل دخل،ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کرنے کی بجائے لیت و لعل سے کام لیا گیا،خالی پوسٹوں پر بھرتیوں کا عمل بھی نہ ہوسکا،بلکہ بڑی تعلیمی اداروں کی جانب سے ملازمین کو برطرف کرنے سے بھی کئی گھروں کے چولہے بجھانے کا کردار ادا کیا گیا۔کورونا وبا اور لاک ڈاون میں سب سے اہم کام آن لائن تدریسی عمل تھا جو بوجوہ ناکام رہاہے، انٹرنیٹ کی عدم فراہمی، اسباق کی تیاری جیسے مسائل نے یہ منصوبہ بھی مکمل نہیں ہونے دیا،کبھی ٹی وی پر لیکچر اور کبھی ٹیلی سکول کے نام پر بچوں کو کنفیوز کیا جاتارہاہے۔سرکاری افسران اور ماہرین تعلیم کے نام پر لاکھوں روپے تنخواہوں و مراعات کے نام پر بٹورنے والے فوج ظفر موج اس مسئلے کو حل کرنے میں یکسر ناکام رہی ہے جس سے سال2020 کم از کم وفاقی دارالحکومت میں تعلیمی حوالے سے انتہائی منفی اثرات اپنے پیچھے چھوڑے جارہاہے۔ نئے سال کے لیے حکومت کو نئے سرے سے منصوبہ بندی کرتے ہوئے ٹھوس اقدامات اٹھانا ہونگے تاکہ پاکستان کا تعلیمی نظام بہتر اور شرح خواندگی میں اضافہ کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے۔