انصاف کا خون، معاشرے کاجنازہ!
ارسطو کا قول ہے کہ جب بھی کسی معاشرے میں نا انصافی ہو تو صرف دو قسم کے لوگ خاموش رہتے ہیں ۔ ایک بزدل اور دوسرے خود غرض۔ اپنے چاروں طرف نظر دوڑائیں تو ہماری غالب اکثریت ان دونوں میں سے ہی ایک ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی عوام کو آجتک ہماری اشرافیہ نے کبھی یہ سمجھنے ہی نہیں دیاکہ عدل اور انصاف کا مطلب ہے کیا، کہ اگر ہماری سمجھ میں یہ آ گیا تو کہیں اس کا مطالبہ کرنا شروع نہ کر دیں۔ انصاف کا آسان مطلب ہے دوسروں کے حقوق ادا کر دینا۔ یعنی کہ جس کا جو بھی حق ہو وہ اسے ملے، خود بخود ملے اور جلد از جلد ملے۔ چاہے وہ صاف پانی ہو، صحت یا تعلیم ہو، با عزت روزگار ہو یا سکول، کالج میں داخلوں سے لے کر نوکریوں میں میرٹ کی پاسداری ہو۔ اس میں سے کوئی بھی چیز اگر میسر نہیں ہے تو معاشرے میں انصاف کا خون ہو رہا ہے۔
عدل و انصاف کی بہت سی اقسام اور تقاضے ہیں۔ سب سے پہلے اللہ کے ساتھ بندے کا انصاف یہ ہے کہ بندہ صرف اللہ کی بندگی کرے اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتے ہوئے اسکے تمام احکام بجا لائے۔ اس کے بعد انسان کا انسانوںکے ساتھ انصاف یہ ہے کہ ہر انسان کو معاشرے میں اسکے تمام حقوق ملیں۔ عدل اور انصاف کی یہ قسم سب سے اہم ہے اور ــ’’ سماجی انصاف ‘‘ کہلاتی ہے۔ مختصر الفاظ میں اسکی تشریح ہے ’’ جزا اور سزا‘‘ ۔ یعنی انصاف کا صرف یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی مجرم کو اسکے کیے کی سزا ملے۔ بلکہ انصاف کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ حقدار کو جزا بھی ملے۔ اگر کسی نے اچھے نمبر لیے ہیں تو اسکی جزا ہے کہ اسے میرٹ پر اچھے کالج میں داخلہ ملے۔ اگر کسی نے تعلیمی میدان میں اچھی کارکردگی دکھائی ہے تو اسے بغیر سفارش اسکی جزا یعنی اسکی قابلیت کے مطابق نوکری ملے۔ قیام پاکستان سے اب تک ہمارے حکمرانوں نے اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی بجائے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ ’’ سزا اور جزا‘‘ کا تعلق شاید صرف روز آخرت سے ہے۔ روز آخرت تو حساب کتا ب ہی اس بات کا ہونا ہے کہ ہم نے اس دینا میں اپنے ارد گرد جزا اور سزا ( یعنی عدل و انصاف) کا خیال رکھا تھا کہ نہیں۔
اس اصول کو نظر میں رکھتے ہوئے اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں اوراپنے آپ سے بھی اور اپنے ہر جاننے والے سے یہ سوال کریں کہ کیا ہمارے ملک میں عدل و انصاف ہے؟ اگر ہے تو کہاں ہے؟ یہاں تو ہمارے حکمران آجتک ہمیں ہمارا حق دینے کی بجائے ہم پر احسانات کرتے آئے ہیں۔ اگر کوئی سڑک بن گئی ، گلی میں کوئی لائٹ لگ گئی ہے تو ہمیں سکھایا گیا ہے ( اور نئے پاکستان میں بھی یہی روش برقرار ہے) کہ فوراََ شکریے کے بینر لگائو، گویا یہ بنیادی ضرورتیں ہمارا حق نہیں ہے بلکہ حکمرانوں نے ہم پر احسان کیا ہے۔یہ سب بھی عدل و انصاف کے قتل کی ہی ایک صورت ہے۔ ہماری تو تر بیت ہی یہ کی گئی ہے کہ سڑک مانگ لو، سیورج مانگ لو، سٹریٹ لائٹ مانگ لو اور اگر اس میں سے کچھ مل جائے تو خوشی سے بغلیں بجائو۔ ہمیں یہ سکھایا ہی نہیں گیا کہ یہ سب تو ہمارا بنیادی حق ہے۔ وہ اصل جس کی ہمیں جستجو کرنی ہے وہ عزت نفس،تعلیم، ایمان داری، صحت، میرٹ ہے۔ غربت کا علاج چند ہزار روپے کی امداد ( بھیک ) نہیں بلکہ انصاف ہے۔ اورمعاشرے میں انصاف نہ ہو تو افراد کی زندگیاں تو اجیرن ہوتی ہی ہیں لیکن یہ روش آہستہ آہستہ تمام معاشرے کو تباہ کر دیتی ہے کیونکہ انصاف کے بغیر امن، ترقی، خوشحالی ممکن ہی نہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان قائد اعظم کے انتقال کے بعد سے جاگیر داروں اور سرمایہ کاروں کے ہاتھوں میں آ گیا اور آج تک پھنسا ہوا ہے۔صرف نعرے تبدیل ہوتے ہیں، ہمیں ڈالے جانے والا ’’ دانہ‘‘ تبدیل ہوتا ہے ہمارا قفس وہی ہے۔ چند خاندان اپنے ساتھی چند سو خاندانوں کے ساتھ مل کر کڑوڑوں عوام پر راج کر رہے ہیں۔ان میں سے کچھ حکومت میں آ جاتے ہیں اور کچھ اپوزیشن میں ، اسکے بعد حکومت میں آنے والے اپنی حکومت بچانے میں مصروف رہتے ہیں اور اپوزیشن حکومت گرانے میں۔ آج جسے سزا ملتی نظر آتی ہے وہ کل ہمارا حکمران بن جاتا ہے۔ یہ ’’باریاں‘‘ لگی رہتی ہیں اور ہماری عوام اپنے اپنے لیڈروں کے لیے انصاف مانگتی رہتی ہے۔ جب انکے لیڈر کی حکومت کرنے کی باری آ جائے تونعرے لگاتے ہیں کہ انصاف مل گیا انصاف مل گیا۔ میں سوال کرتا ہوں کہ کس کو انصاف مل گیا؟ کیا کبھی یہ لوگ اپنے لیے اپنی آنے والی نسلوں کے لیے انصاف مانگیں گے؟ کبھی ان لوگوں میںا تنا شعور بیدار ہو گا کہ یہ اپنے اپنے لیڈروں کے لیے نعرے لگانے کی بجائے خود اپنے لیے کچھ مانگیں۔ ایسا پاکستان ایسا معاشرہ طلب کریں جہاں انسان کو انسان سمجھا جائے۔ جہاں کچھ لوگ انسان اور باقی کیڑے مکوڑے نہ ہوں۔ جہاں سب کے لیے ایک جیسا قانون ہو اور سب قانون کی نظر میں ایک جیسے ہوں۔ جہاں نہ تو امیر آدمی کے لیے چھٹی کے دن عدالت لگتی ہو اور نہ غریب کے مقدمہ کی تاریخ کئی کئی برس بعد آتی ہو۔ جہاں ـ’’آکسفیم‘‘ کی رپوٹ یہ نہ بتاتی ہو کہ پاکستان میں غریب گھرانوں میں پیدا ہونے والی اگلی نسل کی اکثریت بھی غریب ہی رہے گی۔ جہاں پینتالیس فیصد بچے غذا کی کمی کا شکارنہ ہوں۔ جہاں دیہاتوں اور قصبوں سے شہروں کی سیر کو آنے والی غریب عوام ’’ میگا پراجیکٹس‘‘ کو دیکھ کر اپنے حکمرانوں کی تعریفیں کرنے کی بجائے یہ سوال کریں کے یہ پیسہ انکے گائوں، قصبوں میں صاف پانی، تعلیم اور صحت پر خرچ کیوں نہیں کیا گیا۔انکے ساتھ یہ سماجی نا انصافی کیوں کی گئی؟
اگر اب بھی ہم اپنے لیڈروں کی بجائے خود اپنے لیے حقیقی انصاف نہیں مانگیںگے تو بس پھر وہ دن دور نہیں جب ہمارے معاشرے کا جنازہ ہمارے کندھوں پر ہو گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ’’اے ایمان والو، انصاف پر قائم رہو، اور خدا کے لیے سچی گواہی دو، خواہ (اس میں) تمھارا یا تمھارے ماںباپ اور رشتہ داروں کا نقصان ہی ہو۔ اگر کوئی امیر ہے یا فقیر تو خد ا انکا خیر خواہ ہے۔ تو تم خواہش نفس کے پیچھے چل کر عدل نہ چھوڑ دینا۔ اور (اگر تم) گواہی میں پیچ دار بات کرو گے یا ( حق سے) پہلو تہی کرو گے تو (جان رکھو) خدا تمھارے سب کاموں سے واقف ہے۔ (سورۃ النسائ، آیت ۱۳۵)‘‘