ساحل کی سوغات! خار و خس و خاک
دانش سکولوں نے آج تک کتنے دانشور پیدا کئے‘ تعلیم کا بگڑا نظام کوئی وزیر تعلیم‘ کوئی سیکرٹری ٹھیک نہ کرسکا۔ بدقسمتی سیکرٹری کی ہے کہ اسے ہفتوں اور مہینوں سے زیادہ کرسی ٔ تعلیم پر براجمان رہنے کا موقع نہیں ملتا۔ وہ اساتذہ اور طلباء سے مکالمہ نہیں کرپاتا‘ ہائر ایجوکیشن کی نااہلی کہ تمام کالجوں میں سی ٹی آئی کے نام سے سالانہ عارضی بھرتی ہوتی ہے۔ ماضی میں کبھی ایڈہاک لیکچررز ہوا کرتے تھے‘ سالہا سال کے بعد ان کچوں کو پکا کیا جاتا تھا۔ یومیہ اجرت کے سرکاری ملازم ’’کچے‘‘ کے نام سے بھرتی ہوتے اور پانچ دس سال انہیں دھرنوں اور احتجاجوں کے بعد پکا کرنے کا اہتمام ہوتا۔ کالجوں‘ سکولوں کے ڈائریکٹوریٹوں کی کارکردگی ڈاک خانے سے زیادہ تقریری مقابلے‘ میلاد‘ کھیلیں کرانے کے حکم کالجوں سکولوں تک پہنچا دیئے‘ یہ دفاتر سوائے فضول خرچی کے کچھ نہیں‘ بڑے بڑے نامور گروپ آف کالجز بغیر ڈائریکٹوریٹ کے کس طرح کامیابی سے چل رہے ہیں اور گرو کررہے ہیں‘ پرائیویٹ تعلیمی نظام میں نہ ڈائریکٹر کا عہدہ ہے نہ ڈی پی آئی کا‘ یہ کاموں کو التواء میں ڈالنے اور بڑھانے کے ادارے ہیں۔ کالجوں سکولوں سے اساتذہ کی اے سی آرز لے کر سیکرٹریٹ پہنچانا ان کا کام ہے۔ یہی کام کالج اور سکول خود براہ راست بھی کر سکتے ہیں۔ سرکاری نظام چلانے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے کس قدر کامیاب ہیں‘ انکی ہر طرف شہرت کیوں ہے۔ لوگ انکی طرف کیوں لپک رہے ہیں۔ والدین سرکاری تعلیمی اداروں کے معیار تعلیم سے کیونکر مطمئن نہیں‘ کسی زمانے میں سینٹرل ماڈل سکول کا خوب شہرہ تھا‘ چھٹی جماعت میں داخلہ ٹیسٹ کیلئے ہزاروں امیدوار ہوا کرتے تھے۔ داخلے کیلئے وزیروں کی سفارش ڈھونڈی جاتی تھی۔ سفارشی داخلوں نے سکول کو اومنی بس کی طرح بھر دیا۔ معیار گرنا شروع ہوا‘ میٹرک کے امتحان میں پہلی پوزیشن لینے والے دوسرے سکولوں کے طلباء ٹھہرے اور وہی نمبرون سکول عام سرکاری سکول بن جاتا ہے۔ اسکی کشادہ گرائونڈ کا بھی وہ حلیہ نہ رہا۔ دانش سکول پنجاب کے ہر ضلع میں اس لئے قائم کئے گئے تھے جن کا معیار تعلیم کسی بھی پرائیویٹ سکول سے کم نہ ہو۔ سستی روٹی کی طرح یہ منصوبہ بھی کرپشن کی بھینٹ چڑھا۔ آڈٹ رپورٹ 11‘ ارب 39 کروڑ روپے کے مبینہ غبن اور بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی۔ ترقیاتی منصوبوں میں ناقص میٹریل کا استعمال اور پیپرا رولز کی خلاف ورزی ہوئی۔ اتنی بھاری رقوم کی ریکوری کیسے ممکن ہوگی؟ دانش سکول بنانے والوں کی دانش کا یہ حال تھا کہ انہوں نے اچھے اچھے سرکاری سکول نام نہاد این جی اوز کی جھولی میں ڈال دیئے۔ اس لئے تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی اس پر ڈائریکٹوریٹس اور ڈی پی آئی کے دفاتر کس لئے ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر میں تو کم پڑھے لکھے لوگ بھی بڑے بڑے سکول چلا رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ اپنا قیمتی وقت انڈر پاسوں‘ پھولوں کی نمائش کے افتتاح اور تصاویر کی وصولی میں ضائع کرنے کی بجائے سکولوں کالجوں‘ ہسپتالوں‘ لاری اڈوں‘ بازاروں کے اچانک دوروں کا سلسلہ شروع کریں‘ ہر سرکاری محکمے کے دفاتر اور ان میں آئے سائلوں کی فریاد سنیں۔
بچوں کے بھاری بستوں کو ہلکا کرنے کا فیصلہ ہوا تو اردو بازار کے تاجروں نے سنگل بک کیخلاف احتجاج شروع کر دیا۔ زیادہ سے زیادہ کتابیں پرائیویٹ سکولوں کا بستہ بھاری کریں گی تو پبلشرز کی جیبیں بھی بھاری ہوں گی۔ یوں بھی کووڈ نے سلیبس کو کلو سے کم کرکے تین پائو کر دیا ہے۔ نجی سکولوں‘ اکیڈمیز اور پبلشرز کا تعلیمی سرگرمیوں کی فوری بحالی کا مطالبہ بجا ہے‘ بچے سارا دن گلی محلوں میں کھیلتے‘ تھڑوں پر بیٹھے‘ گندی باتیں سیکھتے‘ راتوں کو آوارہ گردی کرتے اور موبائل میں کھوئے دکھائی دیتے ہیں۔ آنیوالا وقت بتائے گا کہ ہم نے تعلیم کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا۔ آن لائن کا ڈھونگ رچایا گیا‘ ماہرین کے نزدیک طلباء کیلئے آن لائن تعلیم مؤثر نتائج دینے میں ناکام ہے۔ لاہور میں پبلک ٹرانسپورٹ پر دی جانیوالی سبسڈی پونے 13 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے جبکہ پنجاب بھر میں پبلک ٹرانسپورٹ پر روزانہ دی جانیوالی سبسڈی پانچ کروڑ روپے ہے۔ کثیر رقم خرچ کرنے کے باوجود عوام کا ثمرات سے محروم رہنا ٹیکس کے پیسے کا ضیاع ہے۔
ایف اے ٹی ایف اپنے ہر اجلاس میں ’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ کرتا ہے اور گرے لسٹ سے باہر بھی نہیں نکلتا۔ چالیس ہزار کے پرائز بانڈ پر پابندی لگی اور اب 25 ہزار کے بانڈز ختم کرنے کا فیصلہ سامنے آیا۔ 25 کے بعد 15 اور سات ہزار کے بانڈز کی رجسٹریشن کی جائیگی۔ بانڈز ناجائز ذرائع سے کمائی گئی دولت کو وائٹ کرنے کیلئے استعمال ہوتے رہے۔ ایف اے ٹی ایف کا اصرار ہے تو پرائز بانڈز کے متبادل سیونگ سکیم متعارف کرائی جائے۔
گزشتہ تین ماہ کے دوران ترسیلات زر بتدریج اضافے کے ساتھ برآمدی شعبے میں بھی تیزی دکھائی دے رہی ہے۔ ٹیکسٹائل اور دوا سازی کے شعبوں میں 20 فیصد اضافہ ہوا۔ برآمدات گزشتہ سال انہی مہینوں کے دوران 9 ارب 53 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کے مقابلے میں بڑھ کر 9 ارب 73 کروڑ 70 لاکھ ڈالر پر پہنچیں‘ سب سے بڑا چیلنج غیرضروری درآمدات کا بوجھ ہے۔ بہرصورت کم کرنا ہے۔ درآمدات میں خوردنی تیل اور چائے سرفہرست ہیں۔ چوالیس ہزار ارب روپے کے غیرملکی قرضوں تلے دبی معیشت کو کون کھڑا کریگا۔ ایشیائی ترقیاتی بنک کی رپورٹ کے مطابق اسکے سات ارب ڈالر کا استعمال سست روی کا شکار ہوا۔ حکومتی کوتاہیاں نقصان کا سبب بنیں۔ اصلاحات ادھوری رہیں‘ توانائی کی پیداوار اور اس کا استعمال ایک دوسرے سے ہم آہنگ نہیں۔ عالمی بنک نے مشورہ دیا ہے کہ پاکستان ہوا اور شمسی توانائی سے پیدا کی جانیوالی بجلی کی استعداد بڑھا کر آئندہ 20 سال کے دوران پانچ ارب ڈالر بچا سکتا ہے۔ اس وقت ہائیڈل پاور سے بجلی کی 27 فیصد ہوا‘ شمسی توانائی سے پانچ‘ فرنس آئل 16‘ قدرتی گیس 12‘ ایل این جی 26‘ کوئلہ 9 اور جوہری توانائی سے پانچ فیصد ضرورت پوری ہور ہی ہے۔ 2150 ارب روپے کے گردشی قرضوں کی بڑی وجہ لائن لاسز اور بجلی چوری ہے۔ بجلی چوری جوں کی توں ہے۔ کالاباغ ڈیم باتوں سے آگے نہیں بڑھا۔ سیالکوٹ میں نجی ائرلائن کے افتتاح کے موقع پر وزیراعظم نے کہا ملکی دولت بڑھنے تک لوگوں کو غربت سے نہیں نکال سکتے۔ چین نے 70 کروڑ لوگوں و غربت سے نکالا‘ سی پیک کے ذریعے چینی حکومت اب ملک کے مغربی حصے کو اوپر اٹھانا چاہتی ہے۔