• news
  • image

 کرونا ، موسم ، اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان 

سیدہ عابدہ حسین نے لکھا۔ ’’ہمیں کراچی میونسپل کارپوریشن کے پرانے دفاتر سے باہر باغیچے میں ایک شامیانہ تلے لنچ کیلئے لیجایا گیا۔ لکھنئو کا بہترین مصالحے دار کھانا بھاری مقدار میں کھانے کے بعد میں نے یخ بستہ ٹھنڈی سیون اپ نوش کی ۔ اب میں واش روم کی تلاش میں ادھر اُدھر دیکھنے لگی ۔ میں نے عظیم طارق سے اس کا ذکر کیا لیکن وہ کہنے لگا۔ سب نے کھانا ختم کرلیا ہے اسلئے اب ہم الطاف حسین کے پاس جائیں گے ۔ وہ عمارت کے اندر ہمارے منتظر تھے ۔ کمرا اس قدر تاریک تھا کہ میں الطاف حسین سے ٹکراتے ٹکراتے بچی ۔ قدم پیچھے ہٹاتے ہوئے میں نے پوچھا۔کیا میں واش روم جا سکتی ہوں؟ انہوں نے چٹکی بجا کر اشارہ کیا اور میں ایک طرف ہٹ کر برآمدے میں چلتی ہوئی ایک دروازے میں داخل ہوئی ۔ اس پر ٹائلٹ لکھا ہوا تھا۔ فرش گیلا اور گندا تھا۔ میں واپس لائونج میں آکر پروفیسر غفور کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئی ۔ یہ وہ دور تھا جب جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم مہذب انداز میں چل رہی تھیں۔ الطاف حسین نے ایک چپڑاسی بھیج کر پوچھا ، کیا مجھے ٹائلٹ مل گیا ہے ؟ میں نے چپڑاسی کو بتایا کہ ٹائلٹ گندا اور ناقابل استعمال تھا۔ اس نے الطاف حسین کو یہ اطلاع دی تو میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی ۔ انہوں نے اونچی آواز میں عمران فاروق (قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کے سربراہ) کو حکم دیا کہ وہ اور عظیم طارق جا کر ٹائلٹ کو ٹھیک طرح سے صاف کریں تاکہ’’ بہن‘‘ اسے استعمال کر سکے ۔ کوئی دس منٹ سے بھی کم وقت کے بعد عظیم طارق ادب کے ساتھ مجھے کمرے سے باہر اسی ٹائلٹ کی طرف لے گئے جو اب خشک اور صاف ستھرا تھا۔ میں نہایت ہلکی پھلکی ہو کر اپنے ساتھیوں کے پاس آگئی ۔ جب عظیم طارق اور عمران فاروق قتل ہوئے تو مجھے اس حیرت انگیز دوپہر کی بہت یاد آئی ‘‘ کالم نگار سوچ رہا ہے کہ یہ مغل دربار میں کئے جانے والے سجدہ تعظیمی کی دوسری شکل تھی ۔ آپ اسے ایک نام نہاد جمہوری معاشرے میں شخصی وفاداری کی  مثال بھی کہہ سکتے ہیں۔ عام طور پر سیاسی خدائوں کی نافرمانی کا نتیجہ ٹکٹ سے محرومی کی صورت میں نکلتا ہے ۔ پہلے علامہ اقبالؒ کا شعر دہرا لیں پھر آگے بڑھتے ہیں:۔ 
کسے نہیں ہے تمنائے سروری لیکن
خودی کی موت ہو جس میں وہ سروری کیا ہے 
ٹکٹ ۔ ٹکٹ ۔ ٹکٹ ۔ سیاست میں ہر کسی کوسوائے ٹکٹ کے کچھ اور سوجھتا ہی نہیں۔ پرسوں ترسوں گلوریا جینز ڈی ایچ اے لاہور سے باہر کھلی فضا میں بیٹھے تھے ۔ میرے شہر سے اک اہم ن لیگی سیاسی خاندان کا سپوت بتا رہا تھا۔ ’’اک طرف شیر ہے اور دوسری طرف تلوار ۔ شیر خونخوار بہت اور تلوار تیزدھار بہت ۔ موت کا اندیشہ دونوں طرف یکساں۔ امان کہیں بھی نہیں ۔فیکٹریاں بند ہیںاور ہم شہر بدر ‘ ‘ مشورہ کے خواہاں تھے ۔ عرض کی ۔ لاہور جلسہ کے بعد کچھ دکھائی دے گاکہ حالات کیا کروٹ لیتے ہیں؟ بتانے  لگا ۔’’ بہت سے ن لیگی ممبران اسمبلی ’’تگڑوں‘‘ سے رابطے میں ہیں۔ انہیں ہماری طرح چھپنے چھپانے کی ضرورت نہیں۔ ہم ایسی بیوفائی نہیں کر سکتے ۔ ہماری لمبی سیاسی جدو جہد ہے ۔ اسے رائیگاں نہیں کیا جا سکتا۔ لندن میں بیٹھے قائدین سب جانتے ہیں کہ کون کیا کر رہا ہے ؟ ہم اپنا ٹکٹ گنوانا نہیں چاہتے‘‘۔ کالم نگار سوچنے لگا۔پاکستان میں ساری سیاست’’ ٹکٹ گھروں ‘‘کے گرد گھومتی ہے ۔ سیاسی جماعتوں کے منشور ماضی بعید کا قصہ ہو گئے ۔ اب کسی سیاسی کارکن کو لفظ منشور کے معنی تک نہیں آتے ۔ ادھر جو بھی اپنے قائدین کے لئے پرستش کے جذبات رکھتے ہیں وہی بامراد ٹھہرتے ہیں۔ورنہ بندہ جاوید ہاشمی اور حافظ حسین احمدہو کر رہ جاتا ہے ۔ چند برس پہلے ایک بکر عید پر جناب رفیق تارڑ کو سلام کرنے گئے ۔ یہ سابق صدر پاکستان عدالت سے لے کر صدارت تک مالی امور میں پاک صاف، شفاف رہے ۔ فرمانے لگے ۔ جی چاہتا ہے کہ عید کے روز واہگہ کی سرحد پر جا کر ایک خوبصورت، صحتمند گائے کی قربانی دوں۔ کالم نگار سوچنے لگاپھر کیا ہو جائے گا؟ دونوں ملکوں کا اصل مسئلہ بھوک ہے ۔ بھوک کا کوئی مذہب نہیں ۔ ہندو کی بھوک مسلمان کی بھوک سے مختلف نہیں۔ بھوک صرف بھوک ہوتی ہے ۔ عوامی بھوک کی وجوہات میں ناجائز سرکاری مراعات بھی آتی ہیں۔ گوجرانوالہ میں ایک سیاستدان کا غیر قانونی پٹرول پمپ گرا دیا گیا۔ کیا ملک بھر میں صرف یہی ایک پمپ غیرقانونی تھا؟ کیا درویش منش امیر جماعت اسلامی کو جماعت اسلامی کے پروفیسر خورشید کا اسلام آباد میں اسلامی تحقیق کیلئے بخشا گیا اربوں کا پلاٹ یاد ہے ؟ کیا جماعت اسلامی کو اسلام آباد کی اپنی ہائوسنگ سوسائٹی یاد ہے ؟ یہ سوسائٹی صالحین کیلئے بنائی گئی تھی لیکن نہایت ’’لیاقت‘‘ سے چند صالحین کو امیر کبیر بنانے کے سوا کچھ نہ ہوا۔ ایک سابق سپیکر قومی اسمبلی کو ن لیگی دور میں تعلیم کے نام پر جوہر ٹائون لاہور میں کروڑوں روپے مالیت کے قیمتی پلاٹ سے نوازا گیا ۔ یہ صاحب ان دنوں پی ٹی آئی میںہیں۔ سو احتساب والے ادھر سے آنکھ چرا کر گزر تے ہیں۔ کالم نگار ہارون الرشید کے قلم سے پھول جھڑتے ہیں، گاہ شرارے بھی ۔ ان کی نثر، کوئی کہاں سے تمہارا جواب لائے گا؟ توپ تفنگ والوں سے خاصی راہ و رسم رکھتے ہیں۔ اس کا برملا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ ان کا فون تھا۔ پوچھنے لگے۔ کیا حالات ہیں ؟ لاہور پی ڈی ایم کے جلسہ میں آپ کے شہر سے کتنے لوگ پہنچ رہے ہیں؟ جواب دیا ، پہنچنے والے پہنچ رہے ہیں۔ جو نہیں پہنچ رہے وہ بھی عمران خان کے ساتھ نہیں ۔ روٹی مہنگی ہے ۔ موت بھی سستی نہیں۔ زیست بسر کرنے کو چھوڑیں ،دفن کے لئے بھی دو گز زمیں کا ملنا محال ہے ۔صرف کرونا عمران خان کے ساتھ ہے ۔ ہارون الرشید نے اضافہ کیا ۔ موسم اور اسٹیبلشمنٹ بھی ۔ سو آج کی تازہ خبر یہ ہے کہ صرف کرونا ، موسم اور اسٹیبلشمنٹ ہی عمران خان کے ساتھ کھڑے دکھائی دے رہے ہیں۔ 

epaper

ای پیپر-دی نیشن