پٹرول بحران: رپورٹ وزیراعظم کو پیش ، پٹرولیم ڈویژن کے ذیلی ادارے ذمہ دار قرار
اسلام آباد‘ لاہور (نامہ نگار+نوائے وقت رپورٹ+ آئی این پی) پٹرول بحران پر قائم کردہ کمشن کی رپورٹ وزیراعظم عمران خان کو موصول ہوگئی ہے۔ رپورٹ آج وفاقی کابینہ اجلاس میں پیش کی جائے گی۔ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد پٹرول بحران کمشن کی رپورٹ پبلک کی جائے گی۔ وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب و داخلہ بیرسٹر شہزاد اکبر نے بیان میں کہا کہ کیبنٹ کی منظوری کے بعد رپورٹ عام کی جائے گی۔ احتساب اور شفافیت صرف تحریک انصاف کا خاصہ ہے۔ رواں سال جون جولائی میں ملک میں پٹرول کی مصنوعی قلت پیدا ہوگئی تھی۔ وفاقی حکومت نے پٹرول کی ذخیرہ اندوزی میں ملوث کمپنیوں کا پتا لگانے کے لئے انکوائری کمشن بنایا تھا۔ ایف آئی اے کی رپورٹ میں بحران کا ذمہ دار پٹرولیم ڈویژن کے ذیلی اداروں کو قرار دیا گیا ہے۔ ایف آئی اے نے کہاکہ نجی آئل مارکیٹنگ کمپنیاں پٹرولیم بحران کا باعث بنیں۔ پٹرول پمپس کو جان بوجھ کر پٹرولیم کی سپلائی روکی گئی اورکمپنیوں کے پاس ذخیرہ ہونے کے باوجود مصنوعی بحران پیدا کیا گیا۔ وزارت پٹرولیم اور ڈی جی آئل پٹرول دستیابی یقینی بنانے میں ناکام رہے۔ ذرائع کے مطابق رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بحران کے دوران حکومتی اداروں نے کمپنیوں کے ذخیرے کی جانچ پڑتال نہیں کی۔ ویٹرنری ڈاکٹر شفیع آفریدی کو وزارت میں ڈی جی آئل لگا دیا گیا جن کے پاس آئل سیکٹر میں کام کا کوئی تجربہ نہیں جبکہ متعلقہ اداروں کے درمیان معلومات کے تبادلے کا کوئی میکنزم ہی موجود نہیں۔ایف آئی اے کے وزارت پیٹرولیم سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات کو بھی رپورٹ کا حصہ بنایا گیا ہے۔ جبکہ رپورٹ میں بحران کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی بھی سفارش کی گئی ہے۔ دوسری طرف لاہور ہائی کورٹ نے پٹرولیم بحران انکوائری کمشن کی رپورٹ فوری پبلک کرنے کا حکم دے دیا۔ لاہور ہائی کورٹ میں پٹرولیم مصنوعات میں اضافے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔ عدالت نے وفاقی حکومت کی رپورٹ کے اجرا میں مزید مہلت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات کمشن کی رپورٹ فوری پبلک کرنے کا حکم دے دیا۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ رپورٹ وزیراعظم کو موصول ہو چکی اور انہی کے حکم کے مطابق آج کابینہ میں پیش کی جائے گی۔ چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا کہ 2 دسمبر کو بھی آپ لوگوں نے کہا تھا کہ رپورٹ حکومت کو بھیج دی ہے، کیا حکومت ہر تاریخ پر یہی کھیلتی رہے گی کہ آئندہ تاریخ میں رپورٹ کابینہ میں رکھی جا رہی ہے؟، یہ نہیں ہونا چاہیے کہ جب دل کرے گا تب رپورٹ منظر عام پر لائی جائے، ساری کابینہ مل کر کہہ دے کہ اس رپورٹ نے پبلک نہیں ہونا تو پھر بھی رپورٹ پبلک ہوگی، 30 دن کیا آپ نے اس رپورٹ کو مائیکرو ویو میں رکھنا ہے؟، وفاقی حکومت نے 3 دسمبر کو میٹنگ میں رپورٹ پیش کرنا تھی، کیا یہ لکھ دوں کہ یہ حکومتی بدنیتی ہے؟، میں سمجھتا ہوں شاید کچھ لوگ نہیں چاہتے، کچھ افسران کی نااہلیاں سامنے آئی ہیں جن کو جتنا التواء رکھا جا سکتا ہے رکھ لیا جائے۔ رپورٹ میں جتنی غلطیاں، کوتاہیاں سامنے آئی ہیں شاید کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ رپورٹ پبلک ہو۔ میں اس رپورٹ کو پبلک کر رہا ہوں۔ پٹرولیم کمیشن کے سربراہ ابوبکر خدا بخش نے بتایا کہ وزارت انرجی اور آئل کمپنیز ایڈوائزی کونسل (او سی اے سی) کے پاس کے پاس مکمل ریکارڈ نہیں ہے۔ جب ڈی جی آئل سے 1971ء کے رولز کے تحت پوچھا کہ ریکارڈ دیں تو انہوں نے معاملہ اوگرا پر ڈال دیا، اوگرا اپنی ذمہ داری ڈی جی آئل پر اور ڈی جی آئل اپنی ذمہ داری اوگرا پر ڈالتے رہے، ہم نے عالمی منڈی میں پٹرول کی گرتی ہوئی قیمتوں سے فائدہ نہیں اٹھایا، عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی گرتی قیمتوں کے دوران یہاں درآمد پر پابندی تھی جس کے باعث 1 لاکھ 88 ہزار ٹن امپورٹ نہیں کیا گیا۔ کابینہ نے بھی ریشنلائزیشن کی منظوری نہ دی اور آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کا کردار بھی اچھا نہیں رہا۔ ایندھن کی قیمتیں مقرر کرنے کا طریقہ کار انتہائی پرانا ہے۔ اسٹیک ہولڈرز کو پہلے سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ آئندہ ماہ قیمتیں کم ہو جائیں گی۔ابو بکر خدابخش نے اپنی انکوائری کے بارے میں بتایا کہ ہم نے 94 پمپ چیک کئے جنہوں نے کوٹہ حاصل کر رکھا تھا، انہیں ایک لاکھ لیٹر پٹرول کاغذوں میں وصول ہوا اور درحقیقت 40 ہزار لیٹر وصول ہوتا رہا، مارکیٹ شیئر کے حساب سے9 کمپنیوں نے 5 ارب روپے کمائے، کچھ کمپنیوں کا ایندھن کا جہاز آگیا تھا لیکن 10 دن انتظار میں رہے کہ حکومت قیمت بڑھائے اور پھر جہاز لنگر انداز کریں، ہمارے ملک میں 66 آئل مارکیٹنگ کمپنیاں ہیں جنہیں ہم سنبھال نہیں پا رہے، انڈیا اور بنگلا دیش نے اپنی آئل کمپنیوں کو کنٹرول کر رکھا ہے۔ ایک کمپنی جس کا ایک بھی پمپ نہیں اسکو ایک ہزار ٹن کا کوٹہ دیا گیا، ڈاکٹر شفیع آفریدی جسے ڈی جی آئل تعینات کیا گیا وہ ویٹرنری ڈاکٹر ہے، ایرانی پٹرول کا جہاز پکڑا گیا تو اسے ملی بھگت سے پاکستان میں بیچا جاتا رہا، عامر عباسی جو بائیکو ریفائنری کے مالک ہیں وہ نیب کو مطلوب ہیں، جو بندہ قانون کا بھگوڑا ہو اسکو لائسنس جاری نہیں ہو سکتا، ملزم پر 23 ارب کا الزام ہے اور نیب نے سندھ میں سوا ارب روپے میں پلی بارگین کر لی۔ چیف جسٹس ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ کہ اس کا مطلب ہے ایک بندہ جس پر 23 ارب روپے کا الزام ہے اسے سوا ارب میں دھو کر صاف ستھرا کر دیا، چیئرمین اس طرح کی پریس کانفرنسز کرتے ہیں کہ اتنے پیسے ریکور کر لئے، حکومت کے 4 دن پہلے ریٹ بڑھانے کی وجہ سے 7 کمپنیوں نے 2 ارب روپے کما لیے۔ ابوبکر خدا بخش نے کہا کہ بارڈر پر بڑے پیمانے پر سمگلنگ ہوتی ہے، 20 فیصد سمگلنگ کا پٹرول پکڑا جاتا ہے باقی نہیں پکڑا جاتا۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ اسی لئے لوگ کہتے ہیں کہ جو کوئٹہ تعینات ہوتے ہیں وہ ایک سال بعد ارب پتی بن کر آتے ہیں۔ رپورٹ میں سفارش کی گئی کہ اوگرا کو تحلیل کیا جائے، نئے پٹرولیم رولز بنائے جائیں اور اسٹاک کا معاملہ اس کے تحت رکھا جائے، پٹرول کی قیمتیں 15 دن کی بجائے 30 دن میں بڑھائی یا کم کی جائیں، بحران کے ذمہ داروں کیخلاف نیب کا کیس بنایا جائے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ جو لوگ عہدوں پر نہیں رہے ان کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔ 4 دن پہلے قیمت بڑھانے سے ریاست کو نقصان ہوا ہے وہ کس سے ریکور کیا جائے، حکومت پاکستان یقینی بنائے کہ بغیر رکاوٹ عوام کو ایندھن دستیاب ہو، رپورٹ کی روشنی میں اقدامات کیے جائیں کہ مافیا سپلائی میں رکاوٹ پیدا نہ کر سکے، ڈپٹی کمشنرز اور وفاقی حکومت کے تمام ادارے اپنا کردار ادا کریں۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت ملتوی کر دی۔