پی آئی اے میں بہتری نظر نہیں آرہی : چیف جسٹس
اسلام آبا د (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے پی آئی اے کی کارکردگی رپورٹ کو غیر تسلی بخش قرار دے دیا۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا پی آئی اے چلانے کیلئے پروفیشنل افراد کی ضرورت ہے۔ بڑی بڑی ایئرلائنز بند ہوچکی ہیں۔ پی آئی اے پر اربوں روپے کا قرض بھی انتظامیہ کی وجہ سے ہے۔ وکیل نعیم بخاری نے کہا پی آئی اے انگلینڈ نہیں جا سکتی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا وزیر ہوابازی نے پارلیمنٹ میں کہا پائلٹس کے لائسنس جعلی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاپی آئی اے میں کتنے آدمی بھرتی کیے گئے؟ سربراہ پی آئی اے ارشد ملک نے کہا کوئی بھرتی نہیں ہوئی۔ دو ہزار ملازمین کو نکالا گیا، جس پر چیف جسٹس نے ارشد ملک کو بات کرنے سے روکتے ہوئے کہا آپکے وکیل موجود ہیں وہ بات کرینگے۔ پی آئی اے پر اربوں روپے کا قرض بھی انتظامیہ کی وجہ سے ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاپی آئی اے تو کرونا سے پہلے ہی بیٹھ چکی تھی، چیف جسٹس نے کہا پی آئی اے میں کوئی بہتری نظر نہیں آ رہی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا پہلی فرصت میں تو یورپ میں لینڈنگ پر سے پابندیاں ہٹوائیں۔ پی آئی اے نے کچھ نہیں بتایا کہ پابندیاں ہٹانے کیلئے کیا کرینگے۔ ارشد ملک کے وکیل نعیم بخاری نے دوران سماعت موقف اختیار کیا کہ عدالت وقت دے بہتری لائیں گے۔ جس پر عدالت نے نعیم بخاری کی مہلت کی استدعا منظور کرتے ہوئے سماعت جنوری تک ملتوی کر دی۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے اسلام آباد میں سروس روڈز پر پارکنگ پر پابندی عائد کرتے ہوئے چیئرمین سی ڈی اے کو عملدرآمد کی ہدایت کر دی۔ عدالت نے مارگلہ ہلز میں کرشنگ پر پابندی کے خلاف تمام درخواستوں کو بھی خارج کردیا چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کہا کہ مقامی حکومتوں کے اختیارات عوام کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہے مارگلہ ہلز کو بچانے کا بیڑا سپریم کورٹ نے اٹھایا ہے۔ درخواست گزاروں کے وکیل نے موقف اپنایا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد ہی کرشنگ لائسنس لئے گئے تھے تاہم عدالت نے دوبارہ پابندی عائد کردی جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا عوام کے جینے کے حق کو ڈسٹرب نہیں کیا جا سکتاکیا کرشرز چاہتے ہیں کہ نیشنل پارک ختم ہوجائے؟ مارگلہ ہلز کو بچانے کا بیڑا سپریم کورٹ نے اٹھایا ہے ایسے چلتے رہے تو کے ٹو کی بھی اک دن کرشنگ ہو جائے گی کرشنگ سے ہونے والے ماحولیاتی نقصان کا ہم اندازہ بھی نہیں کر سکتے دوران سماعت میٹرو پولیٹین اسلام آباد سے سی ڈی اے کو اختیارات کی منتقلی پر سپریم کورٹ نے برہم کا اظہارکرتے ہوئے فوری قائمقام مئیر اسلام آباد کو طلب کیا۔ چیف کمشنز و چیئرمین سی ڈی اے عامر احمد علی نے عدالت کو بتایا کہ سٹریٹ لائٹس ،سڑکوں کی تعمیر سمیت پانچ اختیارات سی ڈی اے کو عارضی طور پر دئیے گئے ہیں چیف جسٹس گلزار احمدنے کہامئیر اسلام آباد سے اختیارات لینا آ ئین کی خلاف ورزی ہے۔ چیئرمین سی ڈی اے نے کہامئیر اسلام آباد کی جانب سے پانچ ادارے خود سی ڈی اے کو دئیے گئے ایم سی آئی کو فنڈز کا مسئلہ تھا جس کے باعث ادارے چل نہیں پا رہے تھے نہ ہی کام ہو رہا تھا چیف جسٹس نے کہامقامی حکومتوں کے اختیارات بنیادی حقوق کا معاملہ ہے۔ آ رٹیکل 140 تو پھر اسلام آباد میں غیر فعال ہوگیا ؟قانون عمل کرنے کیلئے بنائے جاتے ہیں بنیادی حقوق کے معاملے حکومت کو ٹانگ اڑانے نہیں دیں گے۔ عدالت نے حکم دیا کہ عدالت کا اسلام آباد میٹرو پولیٹین کے بزنس رولز ایک ہفتے میں نوٹیفائی کئے جائیں سپریم کورٹ نے پیش ہونے پر قائم مقام میئر اسلام آباد کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپکی شہر میں کوئی دلچسپی نہیں لگتی صبح سے شام تک کیا کام کرتے ہیں ۔قائمقام میئر اسلام آباد نے کہادفتر جاتے ہیں لیکن کرنے کو کام کوئی نہیں ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہاجنہوں نے آپکو ووٹ دیا وہ پوچھتے نہیں؟ مئیر اسلام آباد نے کہالوگوں کو معلوم ہے کہ ہم بے اختیار ہیں، چیف جسٹس نے کہا کراچی میں بھی اختیارات کا رونا روتے ہیں یہاں بھی،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسلام آباد کے نالوں کی صفائی کے کیا انتظامات کئے گئے ہیں۔ چیئر مین سی ڈی اے نے کہا بڑی شاہراوں پر باڑ لگوائی جائے گی اسلا آباد میں 100 کے قریب واش رومز بھی بنائے جا رہے ہیں جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا 100 واش رومز سے کیا ہو گا کم از کم 500 واش رومز بنائے جائیں۔ ہر کلومیٹر پر واش رومز بنائے جائیں۔ بلیو ایریا میں پارکنگ کی جگہ نہیں ملتی۔ انتظامیہ شہر میں پارکنگ کا بندوبست کرے۔ اگر پارکنگ نہیں بنوانی تو تمام مالز کو ختم کر دیں۔