چیف سلیکٹر، شہباز، بلاول ملاقات اور اچک زئی!!!
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کوٹ لکھپت جیل میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف سے ملاقات کی ہے۔ گوکہ یہ ملاقات میاں صاحب کی والدہ کے انتقال کی وجہ سے تھی۔ پیپلز پارٹی کے وفد نے شہباز شریف سے تعزیت کرتے ہوئے ان کی والدہ کی مغفرت کے لیے دعا بھی کی۔ چونکہ سب سیاست دان جمع تھے اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سیاسی معاملات پر گفتگو نہ ہوئی ہو۔ یقینی طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کے وفد اور میاں شہبار شریف کے درمیان موجودہ سیاسی صورتحال پر گفتگو ہوئی ہے۔ بلکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ بلاول بھٹو اپنے سیاسی کارڈز اچھے انداز میں کھیل رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ میاں شہباز شریف قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں اور اسمبلی کے اندر سے اگر انہیں کسی بھی قسم کی حمایت تائید یا تعاون کی ضرورت ہوگی تو اس کے لئے میاں شہباز شریف ہی سب سے مناسب ہیں کیوں کہ وہ آئینی اور قانونی حیثیت رکھتے ہیں۔ بلاول بھٹو یہ جانتے ہیں کہ اگر پارلیمنٹ کی سطح پر مذاکرات ہوتے ہیں یا کوئی غیر متوقع یا غیر معمولی پیش رفت ہوتی ہے تو اس مرحلے میں میاں شہباز شریف ہیں سب سے زیادہ با اثر اور طاقتور سمجھ جائیں گے۔ اس لیے بلاول بھٹو سمجھدار سیاستدان کی طرح ایک طرف عوامی اجتماعات میں مریم نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہیں ان کے ساتھ گھوم رہے، حکومت مخالف تحریک چلا رہے ہیں تو دوسری طرف پارلیمنٹ میں ہونے والی سیاست پر بھی کام کر رہے ہیں۔ اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اپنے سیاسی پتے اچھے انداز میں استعمال کر رہی ہے۔ یہی اس جماعت کی خوبی ہے کہ پارلیمانی روایات کو آگے بڑھاتی ہے۔
بلاول کہتے ہیں کہ حکومت کی ضد اور انا کی وجہ سے شہباز شریف اور خورشید شاہ دونوں کو ناجائز جیل میں ڈالا گیا ہے۔ عوام مہنگائی کی سونامی میں ڈوب رہے ہیں،حکمرانوں میں ملک چلانے کی اہلیت نہیں ہے۔ حکومت نے ہمیشہ اپنے مخالفین اور ناقدین کو جیل میں رکھنے کی حکمت عملی اختیار کی ہے۔ یہ رویہ ملک کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے۔ انہوں نے اپنے استعفوں کو ایٹم بم قرار دیا ہے۔ کہتے ہیں کہ ہم ایک پیج پر ہے اور جمہوریت کی بحالی ہمارا مقصد ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں حقیقی جمہوریت بحال ہو۔ سپیکر قومی اسمبلی بات کرنے کی اجازت نہیں دیتے ان حالات میں قومی مذاکرات کیسے ہو سکتے ہیں۔ چیئرمین پیپلز پارٹی کا سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے رویے پر اظہارِ خیال افسوسناک ہے۔ ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ پارلیمنٹ کی عزت و توقیر بحالی اور اس پر عوام کا اعتماد قائم کرنے لئے کے تمام سیاسی جماعتوں کو ذاتی مفادات و اختلافات کو بھلا کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بالخصوص سپیکر قومی اسمبلی اور وفاقی وزرا کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایوان کے اندر ایسا ماحول پیدا کریں کہ سیاسی نوعیت کے اختلافات کے باوجود حزب اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ مل کر ملک و قوم اور قانون سازی کے لئے کام کریں۔ عوام کا پارلیمنٹ پر اعتماد اسی صورت ممکن ہے جب انہیں یہاں اپنے مسائل حل ہوتے نظر آئیں گے اور عوام کو قومی ایشوز پر سیاسی جماعتیں قومی اتفاق رائے قائم کرتے ہوئے نظر آئیں گی۔ سینیٹ الیکشن کے حوالے سے بھی حکومت سپریم کورٹ جانے کی بات کر رہی ہے یہ صورت حال کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے ویسے تو سینیٹ الیکشن کی تاریخوں کا تعین الیکشن کمیشن آف پاکستان کرتا ہے۔ یہ اس ادارے کی ذمہ داری ہے کہ نہ صرف انتخابات کا اعلان کرے بلکہ اس کی تاریخ کا تعین بھی کرے، نتائج کا اعلان بھی کرے اور تمام معاملات کی براہ راست نگرانی بھی کرے لیکن اگر حکومت سپریم کورٹ کا راستہ اختیار کرنا چاہتی ہے تو پھر اسے یہ سوچ لینا چاہیے کہ یہ سب سے آخری فیصلہ جو وہ سب سے پہلے کر رہی ہے۔ کیونکہ سپریم کورٹ آخری دروازہ ہے اور کبھی دروازہ نہیں بھی کھلتا اگر ایسا ہوا تو کیا ہوگا۔ اس لئے جمہوری روایات کی پاسداری کرتے ہوئے، پارلیمنٹ کی عزت اور توقیر ملحوض خاطر رکھتے ہوئے سینیٹ انتخابات کے حوالے سے جو بھی معاملات طے کرنے ہیں وہ پارلیمنٹ میں ہونے چاہییں۔ یہی جمہوریت کا حسن ہے۔ ہر معاملہ سپریم کورٹ میں نہیں جانا چاہیے۔ پارلیمنٹ میں موجود افراد کو بات چیت کے ذریعے راستہ نکالنا چاہیے۔جمہوریت گفت و شنید کا نام ہے، اختلاف رائے اور اظہار رائے کا نام ہے۔ اگر پارلیمنٹ اپنے معاملات سپریم کورٹ کے حوالے کرنا شروع کر دے تو عوامی سطح پر بداعتمادی کا پیغام جائے گا۔ یہ جمہوریت کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔
جہاں تک پاکستان پیپلز پارٹی کا تعلق ہے تو انہیں اپنی حکمت عملی پر ذرا غور کرنا چاہیے کہ انہیں مستقبل میں راستہ اختیار کرنا ہے۔ کیا وہ پی ڈی ایم کا حصہ بن کر صرف مریم نواز شریف کے وزیراعظم بننے کا راستہ ہموار کر رہے ہیں اور خود کو ایک مرتبہ پھر صرف اور صرف سندھ تک محدود کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت بھی سندھ میں ان کی حکومت ہے اور اگر وہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے ساتھ چلتے چلتے ایک مرتبہ پھر انتخابات میں جاتے ہیں تو انہیں یہ جان لینا چاہئے کہ ان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ کیونکہ زمینی حالات کچھ ایسے ہی ہیں کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کا کوئی وجود نہیں ہے۔ یہاں ان کے پاس حلقے جیتنے کے لئے کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ آصفہ بھٹو زرداری پنجاب میں مکمل طور پر موجود رہیں، پارٹی انہیں آزادی دے اور وہ یہاں پر انتخابی مہم کی قیادت کریں وہ پانچ سیٹوں کو دس میں تو بدل سکتی ہیں لیکن پانچ کو پچاس میں بدلنا ان کے بس میں نہیں ہو گا۔ خیبر پختونخواہ میں پی پی پی کی صورتحال کمزور ہے ہے اور یہی حالات بلوچستان میں بھی ہیں بچتا صرف ان کے پاس سندھ ہے جبکہ کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کا بلوچستان اور سندھ میں کوئی وجود نہیں ہے۔خیبرپختونخوا میں تقریبا اختتام ہو چکا ہے اور ان کے پاس صرف پنجاب بچتا ہے یعنی جو حالات پنجاب میں پیپلز پارٹی کے ہیں وہی حالات سندھ میں میں پی ایم ایل این کے ہیں۔ اس لیے یہ زمینی حقیقت دیکھتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ آگے کس بنیاد پر بڑھ رہے ہیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نیا چیف سلیکٹر ڈھونڈ رہا ہے یہ بات تو واضح ہونی چاہیے کہ سلیکٹر آزاد ہونا چاہیے اسے کسی قومی ٹیم کا کوچ ہرگز نہیں ہونا چاہیے مصباح الحق کو دو عہدے دے کر بورڈ یہ ناکام تجربہ کر چکا ہے کہ یا تو ساری ٹیم ان کے محکمے کی کھیل جاتی ہے یا پھر ان کی فرنچائز کی حکمرانی نظر آتی ہے۔ یہ واضح طور پر مفادات کا تصادم ہے۔ یہ سلیکشن کمیٹی بھی چوں چوں کا مربہ ہے۔ قومی کوچز سے صوبائی ٹیمیں سنبھالی نہیں جاتیں اور ساتھ انہیں سلیکشن کی اضافی ذمہ داری دے کر ناصرف اختلاف رائے اور احتساب کا راستہ روکا جاتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ کرکٹرز کی حق تلفی بھی ہوتی ہے اور بدقسمتی سے اس نظام میں کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہوتا۔ ہمیں تجربہ کار اور ایسے کرکٹرز کی ضرورت ہے جنہوں نے ناصرف اچھی کرکٹ کھیلی ہو بلکہ وہ سلیکشن کا تجربہ بھی رکھتے ہوں، معتدل مزاج ہوں، گفتگو کرنا جانتے ہوں اور دلیل سے قائل کرنے کا فن جانتے ہوں، اچھی قوت سماعت کے حامل ہوں۔ جن لوگوں کے انتظامی معاملات میں کوئی خدمات نہیں ہیں انہیں براہ راست قومی ٹیم کا سلیکٹر بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔ انضمام الحق کی صورت میں ہم یہ ناکام تجربہ کر چکے ہیں انہوں نے بحثیت چیف سلیکٹر کوئی تعمیری کام نہیں کیا۔ ساتھ ہی بورڈ یقینی بنائے کہ سابق کھلاڑیوں بالخصوص نوے کی دہائی کے ٹولے اور پاکستان کرکٹ میں صوبائی تعصب کو فروغ دینے والوں سے بچ کر چلے۔ ایسے تعصب پسند کرکٹر ان دنوں متحرک ہیں اور وہ اپنے من پسند افراد کے لیے لابنگ کر رہے ہیں پاکستان کرکٹ بورڈ ایسے منفی کرکٹرز سے دور رہے۔
محمود خان اچکزئی جو کہ اچک زئی ہیں وہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے جلسوں میں جہاں کہیں بھی جاتے ہیں نفرت اور تعصب کو ہوا دیتے ہیں۔ لاہور میں کھڑے ہو کر انہوں نے پنجابیوں کے بارے میں جو کچھ کہا ہے یہ اس جلسے کے میزبانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے اور انہیں اپنے اس عمل پر پہلے شرمندگی محسوس کرنی چاہیے اور پھر لاہوریوں سے اور بالخصوص اہل پنجاب سے ضرور معذرت کرنی چاہیے۔ جہاں تک تعلق اچک زئی کا ہے تو وہ کوئٹہ میں جاتے ہیں وہاں پر کچھ اور بیان دیتے ہیں کراچی جاتے ہیں تو مہاجرین کو برا بھلا کہتے ہیں ہماری قومی زبان پر تنقید بناتے ہیں۔ وہ کیا کر رہے ہیں شاید خود بھی نہیں جانتے، شاید ہوش و حواس میں ہی نہیں ہوتے۔ شاید وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ان کے علاوہ کوئی بھی اس ملک میں نہ تو تاریخ جانتا ہے اور نہ ہی اس خاندان کے پس منظر سے واقف ہے نہ ہی کوئی وطن سے محبت رکھتا ہے اور نہ ہی کسی کو ملک کا درد ہے۔ حالانکہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے اہل پنجاب نے قیام پاکستان کے بعد تکمیلِ پاکستان میں جو کردار ادا کیا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ جس واقعہ کا ذکر اچک زئی کر رہے ہیں اگر وہ اس کی تاریخ خود ہی پڑھ لیں تو انہیں اندازہ ہو جائے کہ حقیقت کیا ہے۔ پنجاب میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں نے اس ملک کے قیام کے لیے اس ملک کے دفاع کے لیے بے مثال قربانیاں دی ہیں اگر کوئی قربانیاں اچک زئی کے پاس ہیں تو اس کا بھی ذکر ضرور کریں تاکہ عوام کو علم ہو کہ ان کے کھاتے میں حکومتوں سے فائدے لینے کے علاوہ بھی کچھ ہے۔ اس ملک کا حسن یہ ہے کہ یہاں پر مختلف قوموں مختلف زبانوں، مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ بستے ہیں اور وہ آپس میں ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں مذہبی تقسیم کی بنیاد پر ایک دوسرے کا گلا نہیں کاٹتے لیکن اچک زئی کمال حاصل ہے کہ وہ جہاں بھی جاتے ہیں آگ لگا کر آتے ہیں ان کا کا تعلق شاید ایک مسلک سے ہے اور وہ نفرت ہے انہیں ہر طرف برائی اور تباہی نظر آتی ہے جبکہ اس برائی اور تباہی کا ایک بڑا کارخانہ وہ خود ہیں۔