• news
  • image

وسیم کی پسند یوسف، راشد کی وسیم، پیٹرول و گیس کا بحران اور بلاول کا اعلان!!!!

گزشتہ روز ہم نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے نئے چیف سلیکٹر کے حوالے سے لکھا تھا۔ بورڈ ایک کو  نئے چیف سلیکٹر کی تلاش ہے۔ پہلے تو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ چیف سلیکٹر وہی بنے گا جو زیادہ تابع فرمان ہوگا یا جس کی ہینڈلنگ نسبتاً آسان ہو گی۔ حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ ہم اختلاف رائے یا آزادانہ فیصلوں یا پھر پھر روایتی سوچ اور کام کرنے کے انداز سے نکل کر کام کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔ اگر کوئی شخص ایسی کوشش کرتا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی تو دور کی بات ہم اسے سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔ یہاں پر بہت اچھے لوگ موجود ہیں ہیں بہت قابل ہنر مند اور با صلاحیت افراد بھی موجود ہیں لیکن مسئلہ صرف یہ ہے کہ کام کرنے کا اچھا ماحول نہیں ملتا، کام کرنے کی آزادی نہیں ہوتی یا پھر روایتی طریقوں سے اچھے لوگوں کو کو عہدہ دے کر پھنسانے کی کوشش کی جاتی ہے، ہاتھ پاؤں باندھ دیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نظام میں اچھے لوگ آ جاتے ہیں لیکن زیادہ دیر چل نہیں پاتے جبکہ دوسری طرف فائلوں کو معمول کے انداز میں چلانے والے یا زیادہ سر درد نہ لینے والے زیادہ وقت گذار جاتے ہیں۔ ان حالات میں کوئی تعمیری کام نہیں ہوتا۔ بدقسمتی سے ہمیں ایسے چہروں کی عادت ہے جو صرف یس سر کہنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ اس طرز عمل  کی وجہ سے ہم بہت سے باصلاحیت اہل اور ترقی پسند دماغوں سے محروم رہتے ہیں۔ یہ مسئلہ ہر شعبے کا ہے۔ یہاں ہم بات بات پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف سلیکٹر کی کر رہے ہیں تو یاد رکھیے محمد یوسف اور محمد وسیم کے مابین مقابلہ بتایا جا رہا ہے۔ اگر کھیل کی سمجھ بوجھ، میدان میں کارکردگی دنیا کے مختلف میدانوں کو سمجھنے کی اہلیت، بہترین بولرز ز کے خلاف کس حکمت عملی کے تحت میدان میں اترنا ہے، کس ٹیم کو کیسے قابو کرنا ہے اس معاملے میں اور اس کے ساتھ ساتھ دنیا کے مختلف میدانوں میں رنز بنانے کی تعداد کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو محمد یوسف اور محمد وسیم کے مابین دور دور تک کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ چونکہ یہ عہدوں کی دوڑ ہے یہاں سیاست بھی ہوتی ہے اور ایسے افراد بھی موجود ہیں جو سامنے آنے کے بجائے دور دور سے ہاتھ ہلاتے رہتے ہیں یا اپنے فرنٹ مین کے ذریعے کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے ہی کھلاڑیوں میں ایک نام راشد لطیف کا بھی ہے۔ ان کی ملک کے لیے کیا خدمات ہیں یہ تو ایک الگ بحث ہے لیکن فکسنگ کے معاملے میں جو دوغلا کردار انہوں نے ادا کیا ہے وہ بہرحال کسی بھی طرح فکسنگ سے کم نقصان دہ نہیں ہے۔ راشد لطیف یہاں محمد وسیم کو سپورٹ کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں حالانکہ یہ واضح ہے کہ ان کا مقابلہ کسی عام کھلاڑی یا کسی عام شخص سے نہیں بلکہ دنیا کے بہترین بلے باز محمد یوسف سے ہے ہے دوسری طرف وسیم اکرم کی پسند ہے اور وہ محمد یوسف کے حمایتی ہیں۔ دیکھتے ہیں کس کی پسند کو یہ اہم ذمہ داری ملتی ہے۔ اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو محمد یوسف کو کسی حمایت کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے اگر انتخاب صرف کھیل کے میدان کی کارکردگی کے اعتبار سے ہوتا ہے تو یوسف کے بعد کسی دوسرے نام کی ضرورت نہیں ہے۔  اس لئے جو دستیاب لوگ ہیں ہیں یا جو نام جن پر پاکستان کرکٹ بورڈ کام کر رہا ہے ان میں سے محمد یوسف چیف سلیکٹر بن جانا چاہیے۔ پھر دوسرا مرحلہ آتا ہے کہ اگر انہیں یہ ذمہ داری ملتی ہے تو وہ کس حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔ وہ غیر روایتی انداز میں کام کریں گے یا پھر سلیکشن کا روایتی طریقہ اختیار کریں گے۔  
جن دنوں پیٹرولیم مصنوعات کا بحران تھا انہی صفحات پر ہم نے اس بحران کے حوالے سے کئی مرتبہ لکھا اور اور جن خامیوں کی وجہ سے پاکستان میں پٹرول پمپ بند ہوئے یا لوگوں کو لائنوں میں لگنا پڑا یا پیٹرول کی قلت ہوئی ان تمام خامیوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ اس دور میں بھی جب پیٹرول سستا خریدا جا سکتا تھا نشاندہی کی گئی اور انہی صفحات کے ذریعے سائرن بجایا کہ حکومت آنے والے وقتوں کے لیے پٹرولیم مصنوعات کے حوالے سے بہتر پالیسی اور بہتر حکمت عملی تشکیل دے کر ملک و قوم کو کے لئے آسانیاں پیدا کر سکتی ہے۔ بدقسمتی سے ایسا تو نہیں ہوا اور یہ پہلی مرتبہ بھی نہیں ہوا کہ حکومت کے اہم وزیران یا مشیران کرام عوامی مسائل کے حوالے سے تاخیر سے فیصلے کریں۔حکومت میں شامل اہم شخصیات براہ راست عوام میں سے نہیں ہیں نہ ہی ان کا عوام سے کوئی تعلق نہیں ہے نہ وہ کسی سیاسی عمل سے نہیں گذرے ہیں اور انہیں عوامی مسائل کا ادراک بھی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان پر کسی چیز کا کوئی دباؤ بھی نہیں غلط کریں درست کریں فیصلے بروقت کریں یا تاخیر سے کریں، انہیں اس سے کوئی فرق پڑتا ہے نہ تکلیف پہنچتی ہے۔ تکلیف عوام کو پہنچتی ہے اور آنے والے دنوں میں ہو سکتا ہے اس حوالے سے عوام کو مزید تکلیف کا سامنا کرنا پڑے۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بیان دیا ہے کہ دنیا میں سستا تیل مل رہا تھا لیکن پاکستان محروم رہا تین ڈالر 70 سینٹ کی پیشکش نہیں لی اور اب ایک کمپنی سے انیس ڈالر کی بڈ لی جا رہی ہے۔ اب یہ بیان پوری کہانی سنا رہا ہے کس طرح تاخیر سے یا غلط فیصلوں کی وجہ سے عوام پر بوجھ پڑتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے ضروری اشیا کی قلت ہوتی ہے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے اور پھر کے حکومت کے معاشی جادوگر اعدادوشمار کے ہیر پھیر میں وزیراعظم عمران خان کو تفصیلات بتاتے ہوئے ہندسوں کو اوپر نیچے آگے پیچھے کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کچھ عرصے بعد وزیراعظم عمران خان اعتراف کرتے ہیں کہ فیصلہ کرنے میں تاخیر ہو گئی اس وجہ سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا لیکن آج تک ایسے تمام افراد جنہوں نے غلط مشورے دیے یا غلط معلومات پہنچائیں یا پھر فیصلے تاخیر سے کیے۔ ان غلط فیصلوں کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑا ان اہم شخصیات کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں ہوئی کوئی ایکشن کیوں نہیں ہوا یا انہیں سزا کیوں نہیں دی گئی غلطی کوئی اور کرتا ہے سزا عوام کو بھگتنا پڑتی ہے۔ مفتاح اسماعیل کا یہ بیان، تمام واقعات اور موجودہ حالات یہ بتاتے ہیں کہ عام آدمی کے مسائل میں حکومتی وزرائ￿  کی کوئی دلچسپی نہیں ہے اور نہ ہی وہ ایسے معاملات میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں وزیراعظم عمران خان کو فیصلہ کر لینا چاہیے کہ عوام کو ان سے امیدیں ہیں اور لوگوں نے ووٹ کسی اور کو نہیں عمران خان کو دیا ہے، لوگ سوال بھی عمران خان سے کرتے ہیں۔ آج وزیراعظم پاکستان جہاں اپوزیشن کے خلاف سخت موقف اختیار کیے ہوئے ہیں انہیں ناکام و نالائق وزرائ￿  کے خلاف بھی سخت موقف اختیار کرنا چاہیے۔ ورنہ ایک پاکستان اور نئے پاکستان کا خواب پورا نہیں ہو سکے گا۔
 پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ ہم نے استعفوں کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یہ ایٹم بم حالات کے مطابق استعمال کریں گے۔ حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے سندھ حکومت کی قربانی بھی دے سکتے ہیں۔ کوشش کریں گے کہ ملک عدم استحکام کا شکار نہ ہو۔حکومت کو اکتیس جنوری تک مستعفی ہونے کا موقع دے رہے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو دمادم مست قلندر ہو گا۔
بلاول بھٹو حقیقی جمہوریت کی بات کر رہے ہیں لیکن وہ یہ پہلو نظر انداز کر رہے ہیں کہ حقیقی جمہوریت کا ایک مطلب حکومتوں کا چلتا رہنا ہے اگر اپوزیشن جماعتیں صرف اقتدار حاصل کرنے کے لئے حکومتوں کو گرانے کا سلسلہ شروع کر دیں تو پھر جمہوریت کا سلسلہ بھی رک جاتا ہے 90 کی دہائی میں یہ کام پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون تھوک کے حساب سے کر چکے ہیں۔ماضی  کے واقعات بہت تلخ ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ سبق آموز بھی ہیں۔ اب پاکستان پیپلز پارٹی کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ اس نے حقیقی جمہوریت کا ساتھ دینا ہے یا پھر جمہوریت کا  نعرہ لگانے والے ڈکٹیٹرز کے ساتھ چل کر جمہوریت کو نقصان پہنچانا ہے۔ جہاں تک تعلق حکومت کی خراب کارکردگی کا ہے۔ اگر اس بنیاد پر حکومت کی تبدیلی جائز ہے تو پھر بلاول بھٹو کو اپنے والد گرامی محترم آصف علی زرداری کے دور حکومت کو بھی دیکھنا چاہیے کہ جب ملک میں لوڈشیڈنگ عروج پر تھی امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب تھی۔ ہر روز دھماکے ہوتے تھے تھے۔ ریاست کے اداروں کا بیڑہ غرق ہو گیا لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی۔ اس پس منظر میں بھی بلاول بھٹو کو کو ضرور بات کرنی چاہیے۔ انہیں پاکستان کے عوام کو یہ بتانا چاہیے کہ آج ملک کے مسائل کی ذمہ داری اگر پاکستان تحریک انصاف پر ڈالی جا سکتی ہے تق پھر پاکستان پیپلز پارٹی کے پانچ سال میں جو تباہی آصف علی زرداری کی سربراہی میں ہوئی اس کا ذمہ دار کون ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن