• news

اترپردیش، لو جہاد قانون کی شکار ہندو لڑکی پر تشدد، حمل ضائع ہو گیا: بی بی سی 

نئی دہلی (بی بی سی) بھارت میں لو جہاد قانون کے تحت مسلمان شوہر سے علیحدہ کی جانیوالی ہندو لڑکی کا تشدد سے حمل ضائع کرایا گیا۔ انڈین ریاست اتر پردیش میں شادی کے لیے  مذہب کی تبدیلی کو جرم قرار دینے والے قانون کے تحت مراد آباد میں ہونے والی ایک کارروائی زیر بحث ہے اور اسے اس قانون کے غلط استعمال کی ایک مثال کے طور پر بھی پیش کیا جا رہا ہے۔ پنکی نام کی ایک نوجوان خاتون کو اتر پردیش کی پولیس نے ان کے شوہر سے علیحدہ کر کے خواتین کے لیے ایک سینٹر میں بھیج دیا تھا۔ پنکی پہلی خاتون ہیں جنھیں اتر پردیش میں بین المذہب شادی کو روکنے کے لیے متعارف کرائے گئے قانون کے تحت اپنے شوہر سے الگ کیا گیا ہے۔ پنکی کا الزام ہے کہ خواتین کے مرکز میں  اذیتیں دی گئیں اور ایک انجیکشن دیا گیا جس کی وجہ سے ان کا حمل ضائع ہو گیا۔ تاہم مراد آباد پولیس نے اب تک حمل ضائع ہونے کی تصدیق نہیں کی ہے۔ مراد آباد کے ایس ایس پی پربھاکر چودھری نے بی بی سی کو بتایا کہ خاتون نے عدالت میں دیئے گئے اپنے بیان میں اپنی مرضی سے شادی کرنے اور سسرال جانے کی بات کی جس کے بعد انہیں سسرال والوں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ پربھاکر چودھری کے مطابق خاتون نے خواتین کے مرکز میں پیٹ درد کی شکایت کی تھی جس کے بعد ان کا علاج کرایا گیا تھا۔ حمل ضائع ہونے کے سوال پر مراد آباد پولیس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ کل ہسپتال میں ڈاکٹروں نے پولیس کو بتایا کہ حمل محفوظ ہے اور اس بارے میں ابھی کوئی نئی معلومات پولیس کو نہیں ملیں۔ پنکی کے شوہر کو نئے قانون کے تحت جیل بھیج دیا گیا اور ان کی رہائی اب عدالت کے حکم پر ہی ہوگی۔  22 برس کی پنکی کا کہنا ہے کہ ان کا حمل سات ہفتے کا تھا۔ پنکی کے مطابق پانچ دسمبر کو رات ڈھائی بجے انہیں خواتین کے سینٹر بھیجا گیا اور وہاں پر انہیں ٹارچر کیا گیا۔ پنکی کہتی ہے تین دن پہلے خواتین کے مرکز میں اچانک میرے پیٹ میں درد ہوا۔ طبیعت زیادہ خراب ہونے پر مجھے ہسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے مجھے انجکشن لگائے میرا بہت زیادہ خون بہہ رہا تھا۔ اگلے روز مجھے عدالت میں بیان دیتا تھا میری  طبیعت پھر خراب ہوئی تو ہسپتال میں مجھے پھر انجکشن لگائے گئے۔ میرا حمل بھی ضائع ہو چکا ہے۔ مراد آباد کے ایس پی پربھاکر چودھری کے مطابق بجنور کی بالا دیوی نے پانچ دسمبر کو کانٹھ تھانہ علاقے میں نئے قانون کے تحت ایف آئی آر درج کرائی تھی۔ انہوں نے دو لوگوں پر اپنی بیٹی کا شادی کیلئے مذہب تبدیل کرانے کا الزام لگایا تھا۔ ایف آئی آر درج ہونے کے  بعد دونوں کو عدالتی حراست میں لیا گیا تھا۔ پولیس کے مطابق سی آر پی سی 164 کے تحت خاتون کے بیانات کی تفتیش کی جائے گی۔ جس کے بعد ثبوتوں کی بنا پر فیصلہ کیا جائے گا۔ پولیس کے مطابق پنکی نے جولائی میں راشد نام کے نوجوان سے شادی کی تھی۔ نئے قانون کے تحت دونوں کو الگ کرنے کے بارے میں پولیس پر تنقید بھی ہوئی ہے۔ کچھ دن پہلے خاتون کی ساس نسیم جہاں نے بھی ان کا حمل ضائع ہونے کی بات کی تھی۔ تب حکام نے ان کے الزامات کو خارج کر دیا تھا۔ حکام نے کہا تھا کہ خاتون کو دو بار ہسپتال لے جایا گیا لیکن ان کا حمل محفوظ ہے۔

ای پیپر-دی نیشن