• news
  • image

سینیٹ انتخابات 20 فروری سے 5 مارچ، پرویز الٰہی، شیخ رشید کا خود کش حملہ اور مولانا!!!

سینٹ انتخابات کے حوالے سے کسی کو شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ سینیٹ انتخابات بیس فروری سے پانچ مارچ کے دوران ہو سکتے ہیں۔ ان انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کامیابی حاصل کرے گی پاکستان پیپلز پارٹی بھرپور طریقے سے سینٹ انتخابات میں حصہ لے گی۔ پاکستان مسلم لیگ نواز اگر حصہ نہ بھی لے تو وہ موجود ضرور ہو گی۔ ان انتخابات کے بعد سینیٹ میں میاں نواز شریف کی جماعت کی نمائندگی مزید کم ہو جائے گی۔ کیونکہ ان کی جماعت کے اکثریتی اراکین ملک دشمن بیانیے میں اپنے آن لائن قائد اور ان کی سیاسی سمجھ بوجھ سے عاری صاحبزادی مریم نواز کی بیانیے کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ سینیٹ انتخابات میں یہ واضح ہو جائے گا کہ پاکستان مسلم لیگ گ نواز اکثریتی ارکان اپنی پارٹی بیرون ملک بیٹھے قائد کے ریاستی اداروں کے مخالف بیانیے کا ساتھ نہیں دینا چاہتے۔ نہ ہی وہ نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کے اس ملک دشمن بیانیے کے ساتھ ہیں جس میں ان کا ہدف پاکستان کے دفاعی ادارے اور عدلیہ ہے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ سینیٹ انتخابات سے نواز شریف کی سیاسی زندگی کے خاتمے کا عملی طور پر آغاز ہو جائے گا۔
سینیٹ  انتخابات کے بعد میاں نواز شریف کے پاس آن لائن قائد کا نمائشی عہدہ رہ جائے گا اور یہ عہدہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ اپنی حیثیت کھو دے گا۔ اس لیے جن لوگوں کو اب بھی کوئی شک و شبہ ہے انہیں چاہیے کہ سیاسی حالات کا باریک بینی اور غیر جانبداری سے جائزہ لیں۔ کیونکہ  پاکستان پیپلز پارٹی سینیٹ کا الیکٹرورل کالج پورا کرنے میں مکمل طور پر سنجیدہ۔ اس نے قومی اسمبلی و صوبائی کی خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات کے انعقاد کی درخواست کر دی ہے۔ ایسے وقت میں جب ایک طرف وہ اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ دوسری طرف لانگ مارچ کی تیاری کر رہے ہیں تو پھر قومی و صوبائی اسمبلی کی خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات کی درخواست کرنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والوں کے لئے ایسے چھوٹے چھوٹے فیصلے اور اقدامات مستقبل کے حالات کو سمجھنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی اگر کوئی اندھیرے میں رہنا چاہتا ہے تو اسے اجازت ہے۔ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ میں شامل سیاسی جماعتوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ سینیٹ انتخابات میں  پاکستان پیپلز پارٹی بھرپور حصہ لینے میں نہ صرف سنجیدہ ہے بلکہ وہ روایتی انداز میں انتخابات کا حصہ بھی ہو گی۔  
اب رہ جائیں گے مولانا، وہ اور ان کے چند سیاسی غلام گاتے رہ جائیں گے مولانا آ رہا ہے، مولانا آ رہا ہے۔ جب ہر طرف سے مولانا کو انکار ہو جائے گا پھر وہ یہ بھی کہنے لائق نہیں رہیں گے کہ مولانا جا رہا ہے، مولانا جا رہا ہے۔ ویسے تو مولانا کی اپنی جماعت سے ان کے خلاف آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے لیے انہیں سنبھالنا آسان نہیں ہو گا۔ جمعیت علمائ￿  اسلام کے سینئر رہنما مولانا محمد خان شیرانی نے سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان کو سلیکٹڈ کہہ دیا ہے۔ محمد خان شیرانی نے نے فضل الرحمن کو آڑے ہاتھوں لیا ہے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کے اس بیان کے بعد جمیعت علمائاسلام کے کیمپ میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ ایک طرف مولانا پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ میں سرگرم نظر آتے ہیں تو دوسری طرف ان کی اپنی جماعت سے ان کے خلاف آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔  اس لیے ان واقعات کو مستقبل کے سیاسی منظر نامے سے جوڑا جا سکتا ہے یہ ممکن نہیں ہے کہ مولانا فضل الرحمان کو ایک ہی وقت میں نیب بھی بلائے۔ حکومتی وزراء  ان پر تنقید کریں اور ان کی اپنی جماعت رات کے اہم لوگ مولانا کے خلاف باتیں کرنا شروع کر دیں۔ ان واقعات کے بعد مستقبل کے سیاسی منظر نامے کو سمجھنے میں کوئی مشکل باقی نہیں رہتی۔ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کی مرکزی قیادت کے مسائل کا شکار ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی اچانک موقف میں نرمی پیدا کر کے سارے کھیل بدل سکتی ہے۔ 
ان حالات میں ?پی ڈی ایم کے احتجاجی شیڈول ہر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شاید حزب اختلاف کو اندازہ ہو چکا ہے کہ جنوری کے اختتام یا فروری کے شروع تک تو کسی بڑی تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔ کیونکہ پی ڈی ایم کی اسٹیرنگ کمیٹی نے جن تاریخوں میں ریلیوں کے انعقاد کی منظوری دی ہے اسے سمجھنے بعد یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ جنوری کے آخری ہفتے اور فروری کے ابتدائی دنوں تک تو کوئی بڑی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ ?پہلی ریلی 23 دسمبر کو مردان ،27 کو دسمبر لاڑکانہ 30 دسمبر کو بہاولپور ، 6 جنوری کو بنوں اور 9 جنوری کو ?مالاکنڈ، 11 جنوری کو لورالائی،  16 جنوری  کو تھرپارکر، اٹھارہ جنوری کو خضدار، تیئیس جنوری کو سرگودھا اور آخری ریلی ستائیس جنوری کو فیصل آباد میں ہو گی۔ اس شیڈول کو دیکھنے کے بعد یہ سمجھ جائیں کہ دسمبر اور جنوری میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ سڑکوں پر ہو گی جبکہ فروری کے آخری ہفتے سے لے کر مارچ کے ابتدائی دنوں کے دوران کسی بھی وقت سینیٹ انتخابات میں نظر آئے گی۔۔۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الہی نے اسمبلی کے اجلاس میں حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ انہوں نے جو آواز بلند کی ہے وہ بنیادی طور پر نہ صرف اپوزیشن کی آواز ہے  بلکہ تحریک انصاف کے اراکین صوبائی اسمبلی بھی یہی بات کرنا چاہتے ہیں لیکن شاید وہ مصلحتاً خاموش ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی نے پنجاب کے بجٹ کے حوالے سے نہایت صاف اور واضح انداز میں بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب کا بجٹ بہتر انداز میں استعمال نہیں ہو رہا اور جب بجٹ استعمال ہی نہیں کرنا تو پھر اسمبلی سے اس کی منظوری کی کوئی وقعت نہیں رہتی۔ اگر حکومت نے یہی رویہ اختیار کرنا ہے تو پھر اسمبلی کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ چودھری پرویز الہٰی منجھے ہوئے سیاستدان ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پنجاب کے وزیراعلی کی حیثیت سے انہوں نے جس صوبے کو سرپلس چھوڑا تھا  آج وہ قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ ان کی اس انتظامی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ وہ عوامی مسائل سے نہ صرف بخوبی واقف ہیں بلکہ عوامی مسائل کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ چودھری پرویز الہی کی باتوں کو سنجیدگی سے لینا چاہئے کیونکہ وہ جس پوزیشن پر موجود ہیں۔ وہاں کوئی بھی بات بلا وجہ یا بیمعنی نہیں ہوتی اور یہ حقیقت ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے اراکین صوبائی اسمبلی اپنے حلقوں اور علاقوں میں ترقیاتی فنڈز کی عدم دستیابی اور ترقیاتی منصوبوں میں تاخیر کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہیں۔ اس پر مصیبت یہ کہ وہ اس حوالے سے کچھ کر بھی نہیں سکتے۔ ان حالات میں جب ایک طرف پی ٹی ایم سڑکوں پر ہے سینٹ کے انتخابات کے لئے مصیبت پڑ جائے اور مہنگائی حکومت کی جانب سے چھوڑے۔ پنجاب اسمبلی کق اسپیکر یہ کہے کہ اسمبلی اگر ایسے چلانی ہے، بجٹ بہتر استعمال نہیں کرنا  تو پھر اسمبلی کو بند کر دیا جائے یہ کوئی عام بات نہیں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بالخصوص وزیراعظم پاکستان عمران خان کو چودھری پرویز الٰہی کی تقریر کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ پی ٹی آئی فوری طور پر پنجاب کے ترقیاتی فنڈز کے حوالے سے اپنے اراکین اسمبلی کے تحفظات دور کرے۔ عوامی مسائل حل کرنے کے لئے  منتخب نمائندوں کو اختیارات دینے کے ساتھ ساتھ ان پر اعتماد بھی کرنا ہو گا۔ چودھری پرویز نے بالکل درست بات اور مناسب وقت پر آواز بلند کی ہے۔ حکومت ان مسائل کو حل کرنے، پارلیمانی روایات کو زندہ رکھتے ہوئے منتخب نمائندوں کو کو عوام کے ساتھ ملنے، عوام کے پاس جانے اور ان کے مسائل حل کرنے کے لیے فنڈز کی فراہمی کو یقینی بنائے۔
وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید کہتے ہیں کہ نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی کے مطابق ملک کے بیس سیاستدانوں کو خطرہ ہے۔ جن سیاست دانوں کو خطرہ ہے ان میں مولانا فضل الرحمان بھی شامل ہیں۔ شیخ رشید صاحب کو ایک ایسا مرض لاحق ہے کہ وہ خاموش رہ سکتے خاموش رہنا تو دور کی بات وہ ایسی بات بھی نہیں کر سکتے جس سے کوئی مثبت یا تعمیر کا پہلو نکلتا ہو۔ ان کا بیس سیاستدانوں کو خطرے کا بیان بالکل غلام سرور خان کے اس بیان جیسا ہے جس کے بعد دنیا بھر میں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز پر پابندی لگ گئی تھی۔ شیخ صاحب کچھ خدا کا خوف کریں پاکستان میں برسوں کی محنت، ریاضت  اور ہزاروں کی قیمتی جانوں کے نذرانے کے بعد امن بحال ہوا ہے۔ دنیا کا پاکستان پر اعتماد بحال ہوا ہے۔ لوگ بلا خوف و خطر پاکستان آرہے ہیں اور آپ ان حالات میں کہ جب پاکستان بین الاقوامی تنہائی سے نکلا ہے ایک مرتبہ پھر عالمی سطح پر تنہا کرنا چاہتے ہیں۔ آپ نے بیس سیاستدانوں کو خطرے کی خبر دے کر  دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ خدانخواستہ پاکستان میں امن و امان کے حالات خراب ہیں۔ شیخ صاحب آپ کی ذمہ داری حالات کو درست کرنا اور ملک کے تمام شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ سیاسی قائدین کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔ مائیک پر آکر اس قسم کے بیانات داغنے سے اگر تو حفاظت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے تو روزانہ کی بنیاد پر تین درجن بیانات جاری کرتے رہیں اگر ایسا ممکن نہیں ہے تو پھر عملی اقدامات کریں۔ قوم کو ذہنی میں مبتلا کرنے اور ان پر اپنے باخبر ہونے کی دھاک بٹھانے کے بجائے کچھ کام کر لیں۔ پاکستان ریلویز نہ سہی وزارت داخلہ میں کوئی بہتر کام کر دیں۔ گوکہ اس کی توقع تو نہیں لیکن یہ خواہش اور دعا ضرور ہے کہ آپ وزارت داخلہ کا حال پاکستان ریلوے جیسا نہ کریں۔
وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کو بھی کرونا ہو گیا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ وہ گذشتہ روز شادی کی تقریبات میں شریک ہوئے تھے اس کے بعد ان کی طبیعت ناساز ہوئی ہے۔ دعا ہے کہ وہ جلد صحتیاب ہوں اور چھ ہزار کروڑ کے ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی کرتے ہوئے نظر آئیں۔ کرونا کی دوسری لہر شدید ہوتی جا رہی ہے بالخصوص اس حوالے سے دنیا بھر کے ممالک سے ملنے والی اطلاعات خوفناک ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں اس وبا اور جان لیوا بیماری سے محفوظ رکھے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی صحتیابی کے لیے قارئینِ نوائے وقت سے دعا کی اپیل ہے۔

ناصر اقبال

ناصر اقبال

epaper

ای پیپر-دی نیشن