سودی نظام کیخلاف مقدمات، اٹارنی جنرل موقف تبدیل نہیں کر سکتے: عدالت
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت نے سودی نظام کے خلاف مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ عدالتی دائرہ اختیار کے حوالے سے اٹارنی جنرل اپنا موقف تبدیل نہیں کر سکتے۔ 18سال سے کیس عدالت میں زیرسماعت ہے اس کو مزید طوالت نہیں دے سکتے۔ اٹارنی جنرل واضح موقف اختیار کر چکے ہیں کہ اس عدالت کے پاس سودی نظام کے خلاف مقدمات کی سماعت کا اختیار ہے اس موقف کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ جواب نہ دیا گیا تو یہ تصور کیا جائے گا کہ آپ جواب دینا ہی نہیں چاہتے۔ چیف جسٹس محمد نور مسکان زئی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے جماعت اسلامی سمیت دیگر مذہبی جماعتوں کی جانب سے دائر کی گئی درخواستوں پر سماعت کی۔ عدالتی ہدایت کے باوجود اس سماعت پر بھی سٹیٹ بنک کی جانب سے تحریری جواب جمع نہیں کروایا گیا ۔ سماعت کا آغاز ہوا تو ایڈووکیٹ اسلم خاکی نے پیش ہو کر موقف اپنایا کہ عدالت کی طرف سے جاری کیا گیا سوالنامہ انہیں بھی فراہم کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب اٹارنی جنرل نے موقف تبدیل کر لیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اس عدالت نے ایک سوالنامہ پہلے دیا تھا جس پر فریقین نے اپنا تحریری موقف جمع کردیا تھا اب نیا سوالنامہ اس بنچ نے دیا ہے اس سوالنامے پر فریقین اپنی معروضات عدالت میں جمع کرائیں۔ چیف جسٹس محمد نور مسکان زئی نے کہا کہ بندہ (اٹارنی جنرل) تبدیل ہونے سے موقف تبدیل نہیں ہو سکتا۔ سرکاری وکیل نے موقف اپنایا کہ وہ یہ نہیں کہتے کہ اٹارنی جنرل نے موقف تبدیل کر لیا ہے تاہم اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ وہ خود پیش ہو کر چند معروضات رکھنا چاہتے ہیں جس کے لئے کیس کی سماعت ملتوی کی جائے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ گزشتہ سماعت پر ہدایت کی گئی تھی کہ اس معاملے میں فنانس ڈویژن سے بھی معلومات لے کر عدالت کو فراہم کی جائیں۔ اٹھارہ سال سے یہ کیس عدالت میں موجود ہے اس کو مزید طوالت نہیں دے سکتے۔ سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ ہر پہلو سے تیاری کے لئے وقت دیا جائے۔ کیس کی سماعت جنوری کے آخر تک ملتوی کی جائے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی استدعا پر کیس ملتوی کر رہے ہیں اگر آپ نے اس عرصے میں بھی جواب نہیں دیا تو یہ تصور کیا جائے گا کہ آپ جواب دینا ہی نہیں چاہتے۔ اس عدالت کے سامنے اٹارنی جنرل واضح موقف اختیار کر چکے ہیں وہ اپنا موقف تبدیل نہیں کر سکتے۔ آپ نے اس دنیا میں بھی جواب دینا ہے اور آخرت میں بھی یہ انتہائی اہم معاملہ ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ جو معلومات عدالت کی طرف سے مانگی گئی ہیں وہ فراہم کی جائیں۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کے رہنما پروفیسر ابراہیم خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ کیس 2002ء سے 2015ء تک سماعت کے لئے ہی مقرر نہیں ہو سکا تھا۔ 2015ء سے اس کیس کی سماعتیں ہو رہی ہیں لیکن کیس آگے نہیں بڑھ رہا۔ اٹارنی جنرل کی طرف سے جواب اب تک نہیں آیا۔ کئی تاریخیں گزر چکی ہیں اب عدالت کو آگے بڑھنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت کو رباء اور انٹرسٹ کی تعریف کی طرف جانا چاہئے جو اس کیس کا بنیادی نقطہ ہے۔ حکومت ان الفاظ کی تعریف سامنے لائے۔ پروفیسر ابراہیم نے عدالت کی معاونت کرتے ہوئے کہا کہ عدالت اس کیس کو نمٹانے کے لئے اپنے سابقہ فیصلے میں دیئے گئے احکامات کا سہارا لے سکتی ہے جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک فیصلہ منسوخ ہو چکا ہے تو ہم اس کو کیسے نافذ کر سکتے ہیں جس بنچ نے پہلے کیس سن کر فیصلہ کیا وہ بینچ بھی موجود نہیں ہے۔ حکومت کا موقف آ جائے تو تمام فریق اپنی معروضات عدالت میں پیش کریں۔ سرکاری وکیل نے کہا کہ اسلامی نظام کے خلاف کوئی نہیں جا سکتا تاہم اٹارنی جنرل اپنا موقف پیش کریں گے۔ اس دوران عدالتی استفسار پر بتایا گیا کہ سٹیٹ بنک کے وکیل سلمان اکرم راجہ تھوڑی دیر میں عدالت پہنچ جائیں گے جس پر عدالت نے سماعت میں وقفہ کر دیا۔ کیس کی دوبارہ سماعت ہوئی تو سلمان اکرم راجہ نے سٹیٹ بنک کی طرف سے پیش ہو کر موقف اپنایا کہ ان کی اٹارنی جنرل سے بات ہوئی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ مشاورت سے اس کیس میں عدالت کی معاونت کی جائے گی۔ اس لئے وقت دیا جائے تاکہ اٹارنی جنرل سے مشاورت کے بعد متفقہ لائحہ عمل عدالت میں پیش کیا جا سکے۔ اس پر عدالت نے اٹارنی جنرل آفس کی استدعا منظور کرتے ہوئے کیس کی سماعت اکیس جنوری تک ملتوی کر دی ہے۔ عدالت نے ہدایت کی ہے کہ ملک میں سودی نظام کے خاتمے کے لئے جاری قانون سازی میں پیش رفت سے عدالت کو آگاہ کیا جائے اور وزارت خزانہ کا موقف بھی عدالت میں پیش کیا جائے۔