نیشنل ڈائیلاگ پر پگارا کا پیغام پہنچایا، بے چینی کے خاتمے کیلئے کردار کو تیار جیل سے نہیں کرسکتا: شہباز شریف
لاہور (سٹاف رپورٹر+ آن لائن) سابق وفاقی وزیر اطلاعات و جنرل سیکرٹری فنکشنل لیگ محمد علی درانی نے شہباز شریف سے کوٹ لکھپت جیل میں ملاقات کی۔ 1گھنٹے تک ملاقات میں ملکی و سیاسی حالات پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ سابق وفاقی وزیر اطلاعات محمد علی درانی نے شہباز شریف کو ملک میں بڑھتی ہوئی مایوسی اور بے چینی کی وجہ سے اپنا کردار ادا کرنے پر زور دیا۔ سابق وفاقی وزیر اطلاعات محمد علی درانی نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ میں نے پیر پگاڑا کی طرف سے شہباز شریف کو نیشنل ڈائیلاگ کے حوالے سے پیغام پہنچایا ہے جس پر انہوں نے تفصیلی گفتگو کی ہے۔ شہباز شریف نے ڈائیلاگ شروع کرنے کی حمایت کی ہے، ٹریک ٹو ڈائیلاگ کا آغاز کرنے کی تجویز دی ہے۔ شہباز شریف نے کہا ہے کہ ہے کہ جیل میں بیٹھ کر اپنا کردار ادا نہیں کر سکتے ملک میں بے چینی اور مایوسی کے خاتمے کے لئے وہ کردار ادا کرنا چاہتے ہیں اس کے لئے ان کا جیل سے باہر آنا ضروری ہے۔ آن لائن کے مطابق محمد علی درانی نے شہباز شریف کو پیر سید صبغت اللہ شاہ کا اہم پیغام پہنچایا۔ محمد علی درانی نے کہا کہ پیر پگارا نے چار نکات کیلئے شہباز شریف کے پاس بھیجا۔ انہوں نے ملک میں گرینڈ ڈائیلاگ کی بات کی۔ ٹکرائو سے پہلے ایسے راستے نکالنا ہوں گے کہ جو مفاہمت کا راستہ ہو۔ پاکستان کے حالات و قومی ٹکرائو کی صورتحال سے شدید تکلیف میں ہے۔ پیر صاحب چاہتے ہیں کہ ایسی گفتگو ہو جس میں مخالف لوگ بھی اکٹھے بیٹھ جائیں۔ پارلیمنٹ کو دوبارہ سے اپنا کام شروع کرنا چاہئے۔ ملک میں آئین، پارلیمنٹ کی بالا دستی ہو۔ استعفوں کی آگ جمہوریت اور معیشت کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ پیر پگارا سمجھتے ہیں کہ استعفوں کے بعد بھی ڈائیلاگ ہی ہونا ہیں تو کیوں نہ اس کی ابتدا ابھی سے کی جائے۔ شہبازشریف نے کہا کہ قوم کے اتحاد کیلئے ہر حد تک جانا چاہتا ہوں اور اپوزیشن اور پی ڈی ایم کو متحد کرنا چاہتے ہیں۔ پیر پگارا نے جو تجویز دی ہے اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ محمد علی درانی نے کہا کہ ٹکرائو کی بنیاد سے ایسا ماحول بنا دیا جاتا ہے کہ مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ اور یہ سوچ رکھنے والوں کو اتحاد و یکجہتی پیدا کریں۔ اگر اپوزیشن حکومت کے ساتھ بات نہیں کرنا چاہتی تو اس بات کی ضرورت ہے کہ ڈائیلاگ کو شروع کیاجائے۔ حکومت، اداروں اور اپوزیشن کو ٹریک ٹو ڈائیلاگ شروع کرنے چاہئیں۔ این آر او والی حکومت کی بات روز دیکھ رہے ہیں۔ ٹکرائو ختم کرنے کا ماحول پیدا کرنا ہوگا۔ محمد علی درانی نے واضح کیا کہ پیرا پگارا کی جانب سے کسی کے خلاف یا ٹکرائو کیلئے شہبازشریف سے ملاقات کیلئے نہیں آئے۔ قانون کی بات نہیں اصول کی بات کررہے ہیں۔ اس وقت کوئی ایسی بات نہیں کرنا چاہتا جس سے مسائل پیدا ہوں۔ ضرورت پڑی تو فضل الرحمن، بلاول بھٹو زرداری یا مریم نواز سے بھی سے بات چیت کیلئے بھی جائیں گے۔ ملکی قیادت سے رابطے میں ہیں، نہ لیڈری کے چکر میں ہیں نہ ہی ایسی سوچ ہے۔ ملکی مفاد کیلئے حکومت و اپوزیشن کی یکجہتی ناگزیر ہے۔ جو بات کہہ رہا ہوں وہ اسٹیبلشمنٹ حکومت اور اپوزیشن کیلئے بہتر ہے۔ تاہم احتساب کے نام پر کسی کو بھی دیوار سے لگانا غلط ہوگا۔ اپوزیشن کو گرفتار کرلیں گے تو بات چیت کا دروازہ بند ہوجائیگا۔ جیلوں میں بند کرکے تحریکوں کو نہیں روکا جا سکتا۔ پارلیمنٹ میں موجود رہنمائوں کو آزاد کرنا چاہئے۔ ایسی صورتحال ہے عدلیہ، انتظامیہ اسٹیبلشمنٹ، سیاسی جماعتوں کو نارمل سیاسی مراحل کو لے کر آئیں، میثاق جمہوریت، میثاق برداشت اور میثاق پارلیمنٹ کی اب ناگزیر ہو چکی ہے۔