چاہتے ہیں2023ء میں الیکشن نئی مردم شماری کے تحت ہوں ، گورنر سندھ: متحدہ کو وزیراعظم کا پیغام پہنچایا
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ این این آئی) گورنر سندھ عمران اسماعیل نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایم کیو ایم سے مثبت بات چیت رہی۔ ایم کیو ایم کو وزیراعظم کا پیغام پہنچایا۔ ایم کیو ایم نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے یہ کام اتنی جلد نہیں ہو سکتا لیکن وفاقی حکومت کا واضح منصوبہ تو سامنے آئے۔ مردم شماری سے متعلق نیت کا فقدان نہیں کچھ نہ کچھ مجبوری رہی ہو گی۔ وزیراعظم نے بتایا کہ کوشش ہے 2023ء کے انتخابات نئی مردم شماری سے ہوں۔ خالد مقبول صدیقی کو فون کر کے بتایا کہ میں نے وزیراعظم سے بات کی ہے۔ خالد مقبول صدیقی نے بھی کہا کہ ہم جانتے ہیں فوری طور پر مردم شماری نہیں ہو سکتی‘ کوئی جامع منصوبہ نظر آ جائے تو ہماری تسلی ہو جائے۔ گورنر سندھ عمران اسماعیل نے ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے کراچی میں مردم شماری دوبارہ کروانے کے مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تحریک انصاف کا بھی مطالبہ ہے لیکن اس وقت ممکن نہیں تاہم 2022 ء میں یہ عمل شروع کریں گے۔ بلدیاتی انتخابات سر پر ہیں اور بلدیاتی انتخابات سے پہے مردم شماری ممکن نہیں ہے۔ میڈیا سے بات چیت کرتے گورنرسندھ عمران اسماعیل نے کہا کہ ہماری اتحادی جماعتیں خاص طور پر ایم کیو ایم ہے اور خالد مقبول صدیقی نے پریس کانفرنس میں مردم شماری کی بات کی ہے لیکن اس کے لیے وقت درکار ہوتا، ایک دن میں نہیں ہوپاتا بلکہ بڑی منصوبہ بندی اور بڑے خرچے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ صرف ایم کیو ایم کا مطالبہ نہیں تھا بلکہ عمران خان کی جماعت کا بھی مطالبہ تھا کہ مردم شماری دوبارہ ہونی چاہیے۔ عمران اسماعیل نے کہا کہ ان کے ساتھ زبردست انڈر سٹینڈنگ سے حکومت چل رہی ہے اور ایسا ممکن نہیں ہے ایم کیو ایم حکومت سے باہر چلی جائے یا اتحاد چھوڑ دے۔ ایم کیو ایم اس وقت جو مطالبہ کررہی ہے وہ صریحاً جائز ہے، اس میں کوئی غلط بات نہیں ہو رہی ہے، وہ جس پریشانی کا اظہار کر رہے ہیں وہ تمام جماعتوں میں پائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت بلدیاتی انتخابات سر پر ہیں اور بلدیاتی انتخابات سے پہے مردم شماری ممکن نہیں ہے۔ وزیراعظم نے بھی یہ عندیہ دیا تھا کہ وہ بھی مردم شماری دوبارہ کرانے کے حق میں ہیں لیکن اس کے لیے بہت بڑا خرچہ اور پاک فوج کی مدد چاہیے لیکن فی الحال سرحد پر بھارت کے ساتھ کشیدگی کے حالات ہیں، اس لیے اتنی بڑی تعداد میں اہلکار بھیجنا ممکن نہیں ہے۔ گورنرسندھ نے کہاکہ اگر مردم شماری کا عمل آج بھی شروع کیا جائے تو اس میں کافی وقت لگتا ہے، اس لیے فی الحال اسی مردم شماری کو تسلیم کرکے آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور 2023 ء کے انتخابات سے قبل مردم شماری کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2022ء میں مردم شماری کا عمل شروع کریں گے اور ہم چاہتے ہیں کہ 2023 ء میں نئے انتخابات نئی مردم شماری کے تحت ہوں۔ علاوہ ازیں ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا ہے کہ وفاقی حکومت میں رہنا ہے یا نہیں فیصلہ عوام کریں گے۔ کراچی میں کئی ایسے علاقے موجود ہیں جہاں پر ووٹر موجود ہیں لیکن آبادی صفر دکھائی گئی ہے۔ حکومت بتائے کہ تمام آئینی آپشنز کے باوجود بھی فیصلے کیوں نہیں کئے جارہے۔ پچھلی مردم شماری آٹھ سال تاخیر سے ہوئی اب 8 سال پہلے کرلی جائے۔ حکومت بتائے کہ کیا لاپتہ ساتھیوں کی بازیابی کا مطالبہ غیرآئینی ہے۔ یہ شہر بڑی ذمہ داری کے ساتھ ملک کو چلا رہا ہے۔ کئی دہائیوں سے سندھ کے شہری علاقوں کو زندگی کے ہر شعبے سے پیچھے رکھا گیا۔ سب سے بڑی زیادتی مردم شماری میں شہری علاقوں کے لوگوں کو کم دکھانا ہے۔ سندھ کے شہری علاقوں کو پیغام دیا گیا کہ پاکستان کی سرکاری نوکریوں پر کراچی کا حق نہیں۔
کراچی (نوائے وقت رپورٹ) سندھ حکومت کے ترجمان بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سڑکوں کو چھوڑے اور وفاقی کابینہ سے نکلے۔ ایم کیو ایم سربراہ خالد مقبول صدیقی کی پریس کانفرنس پر تبصرہ کرتے ہوئے مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ متحدہ قیادت عوام کو لالی پاپ دینا بند کرے۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم اپنی پوزیشن واضح کرے کہ صوبے کے عوام کے ساتھ ہے یا نہیں۔ سندھ حکومت کے ترجمان نے واضح طور پر کہا کہ مردم شماری پر صوبائی حکومت کے اعتراضات مشترکہ مفادات کونسل کو آئندہ ہفتے بھیج دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کو غیر آئینی کام کرنے نہیں دیں گے۔ اگر وفاقی حکومت نے ہماری بات نہیں سنی تو عدالت کے پاس جانے کا اختیار سب کے پاس موجود ہے۔ حکومت سندھ کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ آئی جی سندھ معتبر عہدہ ہے، جس پر ہمیں بات کرتے ہوئے احتیاط کرنا ہوگی، وہ اغوا نہیں ہوئے تھے۔ ترجمان حکومتِ سندھ مرتضیٰ وہاب نے نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر سے متعلق 5 وزراء کی رپورٹ کابینہ کو پیش کی گئی، مزارِ قائد کی حرمت کا واضح قانون موجود ہے، رکنِ سندھ اسمبلی راجہ اظہر نے پولیس کے پاس درخواست درج کرائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس نے درخواست کو مجسٹریٹ کے پاس جمع ہونے کا قانونی نکتہ اٹھایا، دوسری درخواست داخل کرانے کی کوشش کی گئی، اسے بھی پولیس نے واپس کر دیا، اس صورتِ حال پر تحریکِ انصاف کے ارکان کا رویّہ نامناسب تھا۔ مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ اس صورتِ حال میں ایک شخص کو کھڑا کیا گیا جس نے جان سے مارنے کی دھمکی کا اضافہ کیا، پولیس نے مؤقف اختیار کیا کہ رپورٹ جھوٹی ہے، اس کا اختیار عدالت کو ہے، عدالت نے اسے سی کلاس کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ کراچی واقعے کی رپورٹ 30 دن میں کابینہ میں جمع کرا دی گئی تھی، کل سندھ کابینہ نے رپورٹ کی منظوری دے دی، وفاقی حکومت اور تحریکِ انصاف کے رہنماؤں نے سیاسی مقاصد کے لیے اس واقعے کو استعمال کیا، پولیس کی تفتیش میں سامنے آیا کہ ایف آئی آر جھوٹی تھی، پولیس رپورٹ سے اتفاق کرتے ہوئے عدالت نے ایف آئی آر ختم کر دی۔ترجمان سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ مزار پر موجود قاری صاحب نے بھی پولیس کو بیان دیا کہ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا، ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ پی ٹی آئی کے بہت سے رہنما تھانے میں موجود تھے، ایک اہم وفاقی وزیر نے بھی تھانے پہنچ کر پولیس پر دباؤ ڈالا، کابینہ کاموقف ہے کہ سیاسی کام میں کسی کو مداخلت کی اجازت نہیں ہے، اپنے سیاسی مقاصد کیلئے مزارِ قائد کو استعمال کیا گیا۔ مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت کراچی واقعے پر وفاقی حکومت کو خط لکھے گی، خط میں بتائے گی کہ آپ کے لوگوں نے پولیس میں مداخلت کی کوشش کی، پولیس نے پریشر میں آکر ایف آئی آر کاٹی، آئی او کا کام تھا کہ وہ چیزوں کو دیکھ کر ایف آئی آر کاٹتا۔انہوں نے کہا کہ تفتیشی افسر نے اپنا کام نہیں کیا، کیونکہ وہ پریشر میں تھا، وفاقی حکومت کو بتایا جائے گا کہ کس طرح آپ کے وزراء اور ایم پی ایز نے غیر قانونی رویّہ روا رکھا،انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر پر چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال نہیں کر سکتے، ایف آئی آر پر وقت 18 اکتوبر کی شام 7 بجے کا درج ہے، جب کہ ایف آئی آر 19 اکتوبر کی صبح 5 بجے درج ہوئی، کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے معاملے پر اثر و رسوخ استعمال کیا گیا، پولیس کو بھی اپنی پرفارمنس کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ ہم ثابت کر سکتے ہیں کہ ہماری آبادی کو کم گنا گیا ہے، عمران خان کے دورِ حکومت میں وفاقی کابینہ غیر آئینی فیصلے کرتی ہے، ان کو ایسا غیر قانونی کام نہیں کرنے دیں گے، ایم کیو ایم نے سڑکوں پر آنے کی باتیں کی ہیں، او بھائی! سڑکوں پر نہیں حکومت سے نکلو۔