’’پیمرا ؔ، سندھ ہاؔئیکورٹ، بول ؔاور جعلی ڈِگریاؔں!‘‘ (2)
’’ اصلی / نقلی ڈگری !‘‘
معزز قارئین !بلوچستان کے ایک سابق وزیراعلیٰ نواب محمد اسلم خان رئیسانی نے کہا تھا کہ ’ ’ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے ۔ اصلی ہو یا نقلی !‘‘۔ اِس پر میرے دوست ’’ شاعرِ سیاست‘‘ نے ایک نظم بھی لکھی تھی جس کے صِرف چار شعر قارئین کی نذر ہیں …؎
’’ خُدا کے برگزیدہ بندےؔ،
ناز و نعم کے پالے!
بڑے خُوش بخت ہیں ، یہ لوگ ،
جعلیؔ ڈگریوں والے!
…O…
کہ استحقاق ؔحاصل ہے،
اُنہیں قانون ساؔزی کا!
کوئی ظِلّ اؔلٰہی ، چاہے جب،
انگوٹھا ؔلگوالے!
…O…
مجھے بھی قرض دے دے،
گر کوئی شخصی ضماؔنت پر!
مری عِزّت ؔ، مری غیرت ؔکو چاہے،
گِروی ؔرکھوالے!
…O…
وطن کو چھوڑ کر ، جاتا نہیں میں ،
اِس لئے "Foreign"!
مجھے اپنا کوئی، چھترول ؔکر کے ،
چھائوں ؔ میں ڈالے!‘‘
…O…
معزز قارئین ! 7فروری 2018ء کو ( اُن دِنوں ) چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عُمر عطاء بندیال اور جسٹس اعجاز اُلاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رُکنی بنچ نے "Axact Company" کی جاری کردہ جعلی ڈگریوں اور ڈگری ہولڈرز کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کِیا تھا ‘‘۔اِس بارے میں ’’ از خود نوٹس‘‘ (Suo Moto)پر سماعت کے دَوران کے دَوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے "D.I.G-F.I.A" مسٹر بشیر میمن سے پوچھا تھا کہ ’’ ہمیں بتائیں کہ "Axact"کی ڈگریوں کا کیا معاملہ ہے ؟۔ اگر یہ الزامات درست ہیں تو ہمیں بتا دیں کیونکہ ملک کی بہت بدنامی ہو رہی ہے !‘‘۔
مسٹر میمن نے چیف جسٹس صاحب سے عرض کِیا تھا کہ ’’ جنابِ والا ! ۔ ملزم شعیب احمد شیخ سمیت دیگر ملزمان کے خلاف ملک بھر میں کل چار مقدمات بنائے گئے تھے ، جن میں سے دو مقدمات اِسلام آباد میں اور دو ضلعی عدالتوں میں ہیں ۔ اِس حوالے سے ایک جج پر رشوت لینے کا الزام بھی ہے!‘‘۔ پھر کیا ہُوا ؟۔5 جولائی 2018ء کو،قومی اخبارات میں شہ سُرخیوں سے یہ خبر شائع ہُوئی کہ "Axact" کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر شعیب احمد شیخ کو اور اُس کے 22 شریکانِ کار کو جعلی ڈگریوں کے ’’ گھوٹالے ‘‘ (Scandal) میں 20,20 سال کی سزائے قید دے دِی ہے !‘‘
"Wikipedia" اور شعیب شیخ !
معزز قارئین ! "Wikipedia" کے مطابق’’17 اپریل 1971ء کو کراچی میں پیدا ہونے والے پاکستانی شعیب احمد شیخ کے "Occupation" (یعنی۔ معمول کی مصروفیت، مشغلہ، روزگار، کاروبار، ذریعہ معاش، پیشہ، قبضہ، تصرف، فوجی کارروائی کے ذریعے قبضہ) کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ’’ مجرم اور سزا یافتہ قیدی‘‘ (Criminal and Convicted Prisoner)ہے اور ’’ آج کل قید میں ‘‘ (Currently Incarcerated)ہے اور اُس کی اہلیہ کا نام ہے عائشہ شیخ ۔
شعیب شیخ پر ’’فوجداری الزام‘‘(Criminal Charge) یہ لکھا گیا ہے کہ ’’ جعلی تعلیمی ڈگریوں کی تیاری اور فروخت کی بڑے پیمانے پر فراڈ کی سازش‘‘ (Conspiracy of Mass Wire Fraud of Manufacturing and Selling Fake Academic Degrees)۔ مزید یہ کہ ’’ جرمانہ ‘‘(Penalty) کے عنوان سے لکھا ہے کہ ’’ شعیب احمد شیخ کو 13 سال مقدمے تک مقدمے کی سماعت کے بعد 7 سال قید اور 5 ملین ڈالر جرمانہ کِیا گیا ۔یعنی۔(7 years in State Prison, Plus 13 Years Probation and a $5 Million Fine)۔
’’پروفیسر محمد سلیم بیگ !‘‘
معزز قارئین ! چیئرمین پیمرا ؔ پروفیسر مرزا محمد سلیم بیگ کا مختصر تعارف یہ ہے کہ ’’اُنکے والدِ (مرحوم) مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری تحریک پاکستان کے نامور کارکن تھے اور قیام پاکستان کی جدوجہد میں اُن کا آدھے سے زیادہ خاندان دہشت گرد ہندوئوں اور سِکھوں سے لڑتا ہُوا شہید ہوگیا تھا ۔قیام پاکستان کے بعد مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری نے پاکستان میں آباد ہونے والے مہاجرین کی آباد کاری میں اہم کردار ادا کِیا تھا ۔
28 مئی 2020ء کو، مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری کی اہلیہ ( مرزا محمد سلیم بیگ اور اُن کے چار بھائیوں ، مرزا ظفر بیگ، مرزا مظہر بیگ، مرزا حامد بیگ اور مرزا خالد بیگ اور بہن فرح کوکب صاحبہ کی والدہ ) جنابہ اصغری بیگم کا وِصال ہُوا ۔محترمہ اصغری بیگم میں بہت سی خوبیوں سمیت ایک خوبی یہ بھی تھی کہ اُنہوں نے اپنے شوہر مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری اور 6 مئی 2002ء کو اُن کے انتقال کے بعدتاحیات اپنے پانچوں بیٹوں کے تعاون سے غریب خاندانوں کی بیٹیوں کی تعلیم و تربیت اور اُن کی شادیوں کا بندوبست کر کے ثوابِ دارین حاصل کیا کرتی تھیں اور اُن کے بعد پروفیسر محمد سلیم بیگ کی اہلیہ بیگم طاہر سلیم بیگ یہ فریضہ انجام دے رہی ہیں !۔
مرزا سلیم بیگ نے جنوری 2016ء کو، وزارتِ اطلاعات و نشریات کے ذیلی ادارہ ’’ڈائریکٹوریٹ آف الیکٹرانک میڈیا اینڈ پبلی کیشنز‘‘ کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ "Directorate" کی گیلری میں مشاہیر آزادی و تحریک پاکستان‘‘ کی تصویروں سے جگ مگ ، جگ مگ کرنے کا بندوبست کردِیا تھااور اُس کے بعد چیئرمین پیمراؔ کی حیثیت سے "Satellite Television"کو بھی!۔ اِسکے باوجود اگر کسی بدنام زمانہ نیوز چینل پر اُنکے خلاف ہرزہ سرائی ہوتی رہے تو ہرزہ سرائوں ہی کی مزید بدنامی ہوتی رہے گی۔ اگرچہ اُن کے نزدیک بدنامی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
معزز قارئین ! ایسے لوگوں کے بارے میں اُستاد شاعر مصطفی خان شیفتہؔ نے کہا تھا کہ …؎
’’ہم طالب شہرت ؔ ہیں ، ہمیں ننگ ؔسے کیا کام ؟
بد نام ؔ اگر ہوں گے تو ، کیا نام ؔ نہ ہوگا ؟ ‘‘
…………………(ختم شد )