• news
  • image

اتوار‘  11؍جمادی الاوّل 1442ھ‘  27؍ دسمبر 2020ء 

کوکنگ آئل کی قیمت میں 12 روپے فی لٹر اضافہ ہو گیا
خدا جانے حکومت کی طرف سے قیمتیں کنٹرول کرنے کے دعوے کہاں مر کھپ گئے ہیں۔ ادھر حکومت ایک سوراخ بند کرتی ہے‘ اُدھر دوسرا سوراخ کھل جاتا ہے۔ بند دونوںسوراخ نہیں ہوتے۔ ایک دو کی بات ہوتی تو چلو صبر کر لیتے۔ یہاں تو پوری چھلنی سامنے ہے۔ کوئی سوراخ بند نہیں ہو رہا۔ آٹا‘ دال‘ چاول‘ چینی‘ گوشت‘ انڈے کے بعد اب گھی اور آئل یعنی کھانے کا تیل بھی بے لگام ہو رہا ہے۔ ہر طرف ’’نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز‘‘ والا معاملہ درپیش ہے۔ کہاں گئی وہ مرحومہ گڈ گورننس جس کے دعوے کرتے ہوئے زبان نہیں تھکتی تھی۔ سب وزیر مشیر مہنگائی کنٹرول کرنے کی بجائے مہنگائی کے حق میں دلائل دے رہے ہیں۔ صاف لگ رہا ہے کہ وہ عوام کے ساتھ نہیں‘ مہنگائی کے ساتھ ہیں۔ کھانے کا تیل پہلے ہی بہت مہنگا ہے‘ اب یکدم2 1 روپے لٹر اس کی قیمت بڑھ گئی۔ کسی کو معلوم نہیں کس نے بڑھائی‘ اس کا جواب کوئی نہیں۔ جلدہی بناسپتی گھی پر پابندی لگنے والی ہے۔ ابھی سے حکومت سوچ لے پھر کیا ہوگا۔ پھر تو کوکنگ آئل 500 روپے لٹر تک جا سکتا ہے جس کے بعد ’’گنجی کیا نہائے گی اور کیا نچوڑے گی‘‘  اب بھلا اتنے وزیر مشیر رکھنے کا کیا فائدہ۔ عوام تو مسائل اور مہنگائی کے گرداب میں دھنس رہے ہیں۔ اس لئے بہتر ہے سب وزیروں اور مشیروں کو فارغ کرکے صرف ایک وزیر مہنگائی بنایا جائے جو صرف اور صرف ملک کو مہنگائی کے چنگل سے نکال کر عوام کو ریلیف دینے کیلئے دن رات وقف کرے۔
٭…٭…٭
سندھ میں 500 سرکاری ملازمین پلی بارگین کے بعد عہدوں پر برقرار
صاف لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ یہ لٹیرے پکڑے جانے پر ہڑپ شدہ رقم کا کچھ حصہ واپس کرکے ’’ستی ساوتری‘‘ ہوگئے ہیں اور حکومت نے کمال مہربانی کرتے ہوئے ان کے سابقہ گناہوں سے صرف نظر کرتے ہوئے انہیں اپنے عہدوں پر کام کرنے کی اجازت دیدی ہے۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ بدعنوان‘ کرپٹ‘ راشی افسر بھی اتنی بڑی تعداد میں جن پر جرم ثابت ہوئے اور بعد میں انہیں برطرف نہیں کیا گیا‘ نااہل قرار نہیں دیا گیا۔ اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوگا۔ کیا حکومت سندھ اس بات سے بے خبر ہے۔ کیا پیپلزپارٹی کے یہ پالتو کارندے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو اتنے عزیز ہیںکہ وہ ان کی طرف سے آنکھیں بند رکھے ہوئے ہیں۔ اگر سائیں قائم علی شاہ کی حکومت ہوتی تو لوگ اسے ان کی بھول چوک قرار دیتے۔ ان کے بارے میں (معذرت کے ساتھ) لطیفہ مشہور ہے کہ وہ تو پارٹی کے حکم پر استعفیٰ جمع کرانے نیشنل بنک صدر کراچی پہنچ گئے تھے کہ استعفیٰ جمع کرا سکیں۔ مگر مراد علی شاہ تو جوان دکھتے ہیں۔ انہیں بلاول اور آصف زرداری کے ساتھ فریال تالپور کی بھی حمایت حاصل ہے۔ وہ اتنے کمزور اور مصلحت پسند کیوں ہو رہے ہیں۔ بہت ہو چکا۔ اسے تو بھٹو اور بینظیر والی پیپلزپارٹی کو بدنام اور تباہ کرنے کی سارش ہی کہا جائے گا۔ بینظیر اور بھٹو کے ناموں کی ہی لاج رکھتے ہوئے اب پلی بار گین کے مرتکب سرکاری ملازمین کو جلد از جلد فارغ کرکے سندھ حکومت کچھ نیک نامی کمائے۔
٭…٭…٭
نیو ایئر ناٹ پر ون ویلنگ کرنے والے مستریوں سمیت جیل جائیں گے
چلیں یہ بھی دیکھ لیتے ہیں کس حد تک درست دعویٰ ہے۔ اگر انتظامیہ اور پولیس واقعی یہ تہیہ کر لے تو رات بھر سائلنسر نکال کر طوفان بدتمیزی برپا کرنے والے یہ لفنگے قابو آسکتے ہیں۔ نیا سال پوری دنیا میں ہنسنے کیلئے منایا جاتا ہے مگر یہ جو لچرپن ہماری سڑکوں پر ون ویلنگ اور پھٹ پھٹ کرتی موٹرسائیکلوں پر شور مچا کر برپا ہوتا ہے شاید ہی کہیں اور ہوتا ہو۔ خوشی کو خوشی ہی رہنے دیا جائے تو مسرت دوبالا ہوتی ہے۔ یورپ‘ امریکہ اور دیگر ممالک میں نشے میں بدمست لوگوں کا ہجوم خرمستیاں کرتا نظر آتا ہے۔ کہیں کہیں پولیس کے ساتھ تصادم بھی ہوتا ہے مگر یہ ون ویلنگ اور ہلڑبازی ہمارے ہاںتو ہوش و حواس میں ہوتی ہے۔ والدین مجبور ہیں‘ نوجوان اولاد ان کے قابو میں نہیں آ تی۔ انتظامیہ اور پولیس تو بے بس نہیں۔ اب اس سال جو فیصلہ ہوا ہے کہ موٹرسائیکلوں کو ون ویلنگ کیلئے تیار کرنے والے آٹو مکینک (مستریوں) کو بھی ون ویلروں سمیت پکڑا جائے گا۔ جن کی نشاندہی یہ ویلر کریں گے کہ انہوں نے کہاں سے موٹرسائیکل تیار کرائی ہے کیونکہ عام موٹرسائیکلوں پر اس قسم کے کرتب نہیں دکھائے جا سکتے۔ ابھی چند روز باقی ہیں۔ اگر پولیس تمام علاقوں کے بدنام مستریوں کو خبردار کر دے تو شاید وہ مزید موٹر سائیکلیں بنانے سے باز رہیں اور لاہوری سکون سے نئے سال کا جشن منا سکیں۔
٭…٭…٭
ریلوے 45 سال سے پیسہ کھا رہا ہے‘ بہتر ہے بند کردیں: اعظم سواتی
بالآخر بلی تھیلے سے باہر آہی گئی۔ سچی بات اعظم سواتی وزیر ریلوے کے منہ سے نکل ہی گئی۔ لگتا ہے یہی حکومت کا ایجنڈا بھی ہے کہ بڑے بڑے قومی اداروں کی نجکاری کرکے ان سے مکمل طور پر جان چھڑائی جائے۔ عجیب بات ہے بیمار کا علاج کیا جاتا ہے نہ کہ اسے فروخت کیا جاتا ہے کہ اس کا خریدار اس کے گر دے ، آنکھیں، جگر اور دیگر اعضاء نکال کر فروخت کردے۔ ریلوے عوام کیلئے سفر کا سب سے محفوظ آرام دہ اور سستا ذریعہ ہے۔ دنیا بھر میں ریل کا نظام احسن طریقے سے چل رہا ہے۔ ہمارے پڑوس ملک میں روزانہ لاکھوں نہیں کروڑوں سے بھی زیادہ مسافر ریل میں سفر کرتے ہیں۔ وہاں ہزاروں میل پر پھیلا ریلوے کا نظام بخوبی چل رہا ہے تو ہمارے ہاں چند ہزار میل ریل کی پٹڑ ی بمشکل سو کے قریب ٹرینیں ہم سے کیوں سنبھالی نہیں جارہی ہیں۔ انگریز تو ہمیں منافع بخش ریلوے کا نظام سونپ گئے تھے پھر یہ اسے ٹرانسپورٹروں کے ہتھے کیوں چڑھایا گیا۔ سفارشی، ناتجربہ کار لوگوں کو کیوں بھرتی کیا گیا۔ ریل کو بند کرنے کی بجائے یہاں سے سیاسی گروپ بندیوں، غیرضروری عملے کو فارغ کرکے اسے مناسب گڈ گورننس کے ساتھ فعال منافع بخش ادارہ بنایا جاسکتا ہے مگر اس کیلئے ضروری ہے کہ اسے کسی سیاسی بہروپئے یا ٹرک ڈرائیور ایسوسی ایشن کی بجائے کسی ماہر ریلوے انجینئر کے سپرد کیا جائے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن