قائداعظم اور بے نظیر بھٹو
دسمبر کا مہینہ پاکستانی سیاست کیلئے انتہائی اہم ہے۔ اسی مہینے میں بانی پاکستان کی پیدائش ہوئی اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں پاکستان کی مقبول ترین لیڈر بے نظیر بھٹو کو دہشت گردوں نے ابدی نیند سلایا۔ قائداعظم محمد علی جناح وہ شخصیت ہیں جنہوں نے جدو جہد آزادی کو لیڈ کیا اور بر صغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو ایک الگ وطن لیکر دیا۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ محمد علی جناح کی شخصیت کا ہی اعجاز ہے کہ آج پاکستان دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔ وگرنہ نہرو، پٹیل ، گاندھی یا کانگرس کے دیگر رہنمائوںکو اگر علم ہوتا کہ محمد علی جناح ٹی بی کے مریض ہیں تو ہو سکتا ہے کہ بر صغیر کا جغرافیہ ہی کچھ اور ہوتا کیوں کہ نہرو یا گاندھی کبھی بھی نہ چاہتے کہ بر صغیر تقسیم ہو اور مسلمان ایک الگ ملک میں رہائش پذیر ہو کر بھارت کو آنکھیں دکھائیں۔ نہرو اور گاندھی کی خواہش تھی کہ ہندوستان ایک متحدہ ریاست کے طور پر ہی رہے اور پاکستان دنیا کے نقشے پر نہ ابھرے ۔ قائداعظم محمد علی جناح بھی یہ چیز جانتے تھے کہ انکے بعد مسلمانوں کے پاس برصغیر میں ایسی کوئی شخصیت نہیں ہے جو نہرو یاگاندھی کی شخصیت کا مقابلہ کر سکے اس لئے انہوں نے بھی اپنی بیماری کو برسوں تک اپنوں پرائے سمیت ہر ایک سے چھپائے رکھا ۔پاکستان بننے کے بعد قائداعظم محمد علی جناح کو قدر ت نے اتنا موقع نہ دیا کہ وہ ایک طویل عرصہ تک پاکستان کی خدمت کر سکتے لیکن وہ ایک واضح لائحہ عمل دے گئے اور اصول بتا گئے کہ ان پر عمل پیرا ہو کر ہی ہم صحیح معنوں میں روشن پاکستان بنا سکتے ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح کا ویژن ہی تھا کہ انہوں نے پاکستان کا پہلا وزیر قانون ایک ہند وکو بنایا اور ہندو بھی وہ جو ہندوئوں کی نچلی ذات سے تعلق رکھتے تھے۔قائداعظم ایساپاکستان چاہتے تھے جہاں مسلمان اور اقلیتیں مل کر رہیں ہر ایک کو مذہبی آزادی حاصل ہو اور ہر کوئی اپنے طور طریقوں کو اپنانے میں آزاد ہو کسی پر کوئی ریاستی ، مذہبی ، فرقہ واریت کا جبر نہ ہو ۔ بدقسمتی سے قائد کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد ہمارے ارباب اختیار نے قائد کے فرامین کو فراموش کرکے ایک ایسے پاکستان کو پروان چڑھایا جس میں فرقہ واریت، مذہبی عدم برداشت، سیاسی ریشہ دوانیاں اور سماجی بیماریاں پیدا کی گئیں جو آج تک پاکستان کا پیچھے نہیں چھوڑ رہیں۔ پاکستان کو اگر ہم نے ترقی یافتہ ، تہذیب یافتہ اور جدید دنیا کے مقابل کھڑا کرنا ہے تو ہمارے ارباب اختیار کو یہ بات پلے باندھنی ہو گی کہ قائد کے فرامین پر عمل پیرا ہو کر ہی ہم یہ منزل حاصل کر سکتے ہیں ۔ ہر سال پچیس دسمبر کا دن ہمیں یہ یاد دلانے ہی آتا ہے کہ اس دن ایک عظیم لیڈر کا جنم ہوا تھا جو اس ملک کو ریاست مدینہ کے اصولوں پر استوار کرنا چاہتے تھے اور موجودہ حکومت بھی ریاست مدینہ کے اصولوں پر پاکستان کو پروان چڑھانے کا دعویٰ کرتی ہے تو اس ضمن میں انہیں قائد کے بتائے ہوئے اصول اور ضابطے بھی حرز جاںرکھنے ہونگے۔ اسی ماہ میں پاکستان کی اپنے وقت کی مقبول ترین لیڈر بے نظیر بھٹو ہمیں داغ مفارقت دے گئیں۔ بے نظیر بھٹو ایک شاندار اور جاندار شخصیت کی مالک خاتون تھیں ۔انہوں نے جو سیاسی مقام حاصل کیا اگر چہ وہ ان کو اپنے والد کی جانب سے ورثے میں ملا (جاری ہے)