• news
  • image

بینظیر واقعی بے نظیر تھی!!!!

محترمہ بینظیر بھٹو کی برسی گذری ہے۔ دو ہزار سات میں لیاقت باغ جلسے سے نکلتے ہوئے انہوں نے زندگی کی آخری سانسیں لیں۔ انہیں دنیا سے گئے برسوں گذر چکے لیکن آج بھی وہ لوگوں کے دلوں میں بستی ہیں۔ آج بھی لوگ انہیں یاد کرتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی سال میں ایک مرتبہ محترمہ بینظیر بھٹو کو اجتماعی طور پر ان کی برسی کے موقع پر یاد کرتی ہے۔ ہر سال برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش میں ایک تقتیب کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ملک بھر سے پاکستان پیپلز پارٹی کے قائدین و کارکنان گڑھی خدا بخش جمع ہوتے ہیں اور اپنی محبوب قائد کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں بینظیر بھٹو کی برسی پر جمع ہونے والے کارکنوں کی محبت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ نہ بینظیر نے کوئی ان کا کام کرنا ہے، نہ وہ اس قابل ہے کہ انہیں دیکھ سکے، نہ وہ اس قابل ہے کہ نہیں نوکری دلا سکے، نہ وہ اس قابل ہے کہ کسی کو سزا سے بچا سکے، نہ وہ اس قابل ہے کسی کو قرض دلا سکے، نہ وہ اس قابل ہے کہ کسی کو ٹکٹ دے سکے، نہ وہ اس قابل ہے کہ کسی مظلوم کا بدلہ لے سکے لیکن اس کی اس کمزوری ہے باوجود ہر سال ہزاروں کی تعداد میں عاشقان بھٹو گڑھی خدا بخش جمع ہو کر عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ یہی بینظیر کی طاقت ہے، یہی اس کہ زندگی بھر کی کمائی ہے، یہی اس کی سیاسی جدوجہد کا انعام ہے، یہی اس کا سرمایہ ہے، یہی اس کی جاگیر ہے، یہی اس کی وراثت ہے، یہی اس محنتوں کا ثمر ہے۔
محترمہ بینظیر بھٹو واقعی بے نظیر تھیں اس میں کچھ شک نہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت متحد ہو کر بھی ایک جلسہ کرنے کی کوشش کرے تو اتنے افراد جمع نہ کر سکے جتنے لوگ بینظیر کی برسی پر جمع ہو جاتے ہیں یہی بنیادی فرق ہے۔ یہی لوگوں کی محبتوں، جذبوں اخلاص اور لگاؤ کا فرق ہے۔ برسوں پہلے انتقال کر جانے والی بینظیر پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی بیلوث محبت آج بھی قائم ہے۔ یہ اجتماع کسی بھی سیاست دان کے لیے ایک سبق ہے۔ بینظیر کی برسی میں جمع ہونے والے اور اس اجتماع کو ٹیلی ویڑن پر دیکھنے والوں کے لیے سبق ہے کہ اگر عوام میں زندہ رہنا چاہتے ہیں تو لوگوں کے دماغوں پر حکومت کریں، لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کریں۔ لوگوں کے مسائل حل کریں، انہیں نام لے کر پکاریں، ان کے ساتھ بیٹھیں، انہیں گلے لگائیں، ان کی باتیں سنیں، ان سے باتیں کریں۔ یہ محبتیں، ایسی عقیدتیں گھر بیٹھے نہیں ملتیں ان کے لیے اپنے آرام، اپنی آسائشوں، اپنی سہولت کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ بینظیر بھٹو کوئی کمزور یا غریب سیاست دان نہیں تھیں وہ بہت مالدار تھیں لیکن اس کے باوجود وہ ایک کمزور کارکن کے دل کی آواز تھیں، کمزور مالی حیثیت والے انہیں اپنا ہمدرد سمجھتے تھے۔ وہ انہیں اپنا رہبر مانتے تھے۔ پیپلز پارٹی کے کارکنان ان پر حق رکھتے تھے اور بینظیر بھٹو نے ہمیشہ اپنے کارکنان کے حق کو تسلیم کیا، انہیں عزت دی، انہیں خیالات کے اظہار کا موقع دیا، انہیں بولنے کی آزادی دی، ان کی رائے کو تسلیم کیا، وہ بھرے مجمعے مجں نظریاتی اور دیرینہ کارکنوں کو ان کا نام لے کر بلایا کرتی تھیں۔ ان کا یہی انداز کارکنان کے لیے بہت بڑا انعام ہوتا تھا۔ آج سیاسی جماعتوں میں کوئی نظریہ ہی نہیں رہا تو نظریاتی کارکنوں کی کیا حیثیت باقی رہتی ہے۔ یہاں تو دنوں میں سیاسی جماعتیں بدلی جاتی ہیں وہاں دیرینہ کارکن کہیں بہت پیچھے رہ گئے جہاں کسی کی نظر بھی نہیں جاتی یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت نچلی سطح پر اتنی منظم اور مقبول نہیں ہے جتنی محترمہ بے نظیر دنیا سے جانے کے بعد بھی مقبول و منظم ہیں۔ کاش کہ آج سیاسی جماعتیں، سیاسی جماعتوں کے قائدین بینظیر بھٹو کی اس سیاسی فکر سے کچھ سیکھ سکیں۔ کاش کہ انہیں احساس ہو کہ سیاسی جماعتوں کی بنیاد نچلی سطح کے کارکن، نظریاتی و دیرینہ کارکن ہی ہوا کرتے ہیں۔ کاش کہ سیاسی جماعتوں کو  محترمہ بینظیر بھٹو کی برسی سے ہی کوئی سیاسی سبق حاصل ہو جائے، کوئی پیغام مل جائے، کوئی سیاسی تربیت ہو جائے۔ 
آپ محترمہ بینظیر بھٹو کی سیاسی زندگی کے مختلف فیصلوں اختلاف کر سکتے ہیں، ان کے طرز حکومت سے اختلاف کر سکتے ہیں، ان کے طرز سیاست پر بھی تنقید کر سکتے ہیں لیکن ان کی پاکستان سے محبت پر کوئی شک نہیں کیا جا سکتا، وہ بلاشبہ ایک محب وطن سیاست دان تھیں، وہ بلاشبہ اس مٹی کے عشق میں مبتلا تھیں، وہ اس ملک کے عوام سے گہرا لگاؤ رکھتی تھیں، وہ اس ملک کے عوام کے دکھ درد کو سمجھتی تھیں، وہ اس ملک کے عوام کے مسائل حل کرنا چاہتی تھیں، وہ اس ملک کے عام آدمی کے دکھ درد کو بانٹنا جانتی تھیں۔ انہوں نے پر آسائش زندگی کے بجائے عوام میں رہنے کو ترجیح دی۔ محترمہ بینظیر بھٹو ایک بہادر خاتون تھیں موت سامنے دیکھ کر منہ پھیرنے یا آنکھیں بند کرنے کے بجائے انہوں نے اس کا مقابلہ کیا۔ موت سامنے دیکھ کر انہوں نے بیرون ملک رکنے کے بجائے اپنے وطن آنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے اپنی سرزمین پر اپنے عوام کے ساتھ زندگی گذارنے کا فیصلہ کیا۔ نہ بندوقوں سے ڈریں، نہ بم دھماکے نا کے عزم میں لغزز پیدا کر سکے، نہ دہشت گردوں کی دھمکیاں ان کے قدم روک سکیں۔ وہ عوام سے بات کرتے کرتے آخرت کے سفر پر روانہ ہوئیں۔ وہ جن کے درمیان رہنے کی خواہشمند تھیں انہی کے سامنے دنیا سے رخصت ہوئیں۔ یہ ان کا اعزاز ہے کہ وہ ڈرنے، بھاگنے یا چھپ کر بیٹھنے کے بجائے میدان عمل میں نکلنے کو ترجیح دیتی رہیں۔ آج بڑے بڑے لوگ ملک سے بھاگنے کو ترجیح دیتے ہیں وہ اپنی مٹی پر اپنے لوگوں کے ساتھ رہنے کو اعزاز سمجھتی تھیں۔ یہی وہ بنیادی فرق ہے جو آج بھی لوگ بینظیر بھٹو کے سحر میں مبتلا ہیں۔ لوگ انہیں بھلا نہیں پائے اور شاید لوگ کبھی انہیں بھلا نہیں پائیں گے۔ وہ واقعی چاروں صوبوں کی زنجیر تھیں، کراچی سے خیبر، لاہور سے کوئٹہ تک وہ جہاں جاتیں لوگ ان کے لیے ایک جیسی محبت کے ساتھ کھڑے نظر آتے۔ زبانوں، روایات اور لباس کا فرق ہر جگہ ہوتا لیکن محترمہ  کی وجہ سے کوئی فرق باقی نہ رہتا وہ وفاق کی بہت بڑی علامت تھیں۔ ان کے جانے کے بعد کوئی بھی سیاستدان اس مقام تک نہیں پہنچ سکا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے سیاسی وارثین کو ملک و قوم کی خدمت کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن