پیر‘ 12؍جمادی الاوّل 1442ھ‘ 28؍ دسمبر 2020ء
ایم کیو ایم کے بعد بی اے پی بھی وفاقی حکومت سے ناراض
اس ناراضگی کا اظہار گزشتہ روز اس وقت دیکھنے میں آیا جب ’’باپ‘‘ کے کئی رہنما مرکزی حکومت پرصوبہ بلوچستان کے مسائل حل کرنے میں تاخیری حربے استعمال کرنے کا الزام لگاتے نظر آئے۔ بی اے پی کے رہنماجن میں صوبائی حکومت میںشامل کئی وزیر اور مشیر بھی شامل ہیں‘ اس بات پر بھی ناراض ہیں کہ وفاقی سطح پر بی اے پی کو وفاقی وزارتیں نہیں دی گئیں۔ وفاقی ملازمتوں میں بھی صوبے کی حق تلفی ہو رہی ہے۔ حکومت بی اے پی سے کئے گئے وعدے پورے نہیں کر رہی۔ حیرت کی بات ہے انہیں یہ سب کچھ اب نظر آرہا ہے۔ 3 سال سے وہ خاموش کیوں رہے۔ پرانی کہاوت ہے جب بحری جہاز ڈوبنے لگتا ہے تو سب سے پہلے جہاز کے چوہے اس سے چھلانگیں لگا کر بھاگ نکلتے ہیں۔ کہیں یہی کچھ مرکزی حکومت کے ساتھ تو نہیں ہو رہا ہے۔ ذرا حالات بدلتے ہیں‘ تمام مینڈکوں کو زکام ہونے لگتا ہے۔ تمام اتحادی اپنے اپنے مطالبات کی نئی فہرست لیکر منوانے آجاتے ہیں۔ اب ظاہر ہے ایم کیو ایم سے زیادہ بہتر یہ کام اور کون کر سکتا ہے۔ ابھی ان کا سپایا ختم نہیں ہوا تھا کہ بی اے پی بھی اس میدان میں کود پڑی ہے اور دکھڑے بیان کرنے لگی ہے۔ وفاقی حکومت ایک کان سے ان کی اور دوسرے کان سے ایم کیو ایم کی سن رہی ہے۔۔ بی این پی (مینگل) والے بھی سامنے ناراض کھڑے ہیں۔ یوں وفاقی حکومت کی ایک انار اور سو بیمار والی حالت ہورہی ہے۔
٭…٭…٭
جعلی ویزوں پر یورپ اور امریکہ جانے والوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ: ایف آئی اے
اس کا مطلب یہ ہے کہ ناجائز ‘ دو نمبر ویزوں کی فروخت کا کاروبار ابھی تک عروج پر ہے ورنہ اس وقت کرونا کی وجہ سے بیرون ملک آنے جانے والوں کی تعداد تو نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ اس کے باوجود جو لوگ جعلی ویزوں پر جا رہے ہیں ان میں سے سینکڑوں کو ہوائی اڈوں پر پکڑا بھی جاتا ہے۔ بہت سے بچ نکلتے ہیں۔ ان میں پاکستانی کم اور پاکستان میں موجود غیرملکی زیادہ ہوتے ہیں۔ جو ناجائز طریقہ سے یہاں کی شہریت اور پاسپورٹ حاصل کرکے دو نمبری کرکے یہاں سے یورپ یا امریکہ جاتے ہیں۔ جہاں ان کے غلط کرتوتوں کی وجہ سے پکڑے جانے پر پاکستان کی بدنامی ہوتی ہے۔ ایسے سینکڑوں واقعات ہمارے سامنے ہیں کہ افغان‘ کرد اور ایرانی مہاجرین نے جعلسازی کرکے یہاں شناختی کارڈ بنوائے‘ پاسپورٹ لیا اور بیرون ملک جا کر پناہ گزینوں کی حیثیت سے خود کو رجسٹرڈ کرایا یا غیرقانونی تارکین کا ٹھپہ لگا کر یہ لوگ جن میں بے شک پاکستانی بھی شامل ہیں‘ یورپ اور امریکہ میں پاکستان کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ ان میں سے کئی منشیات لے جاتے ہوئے وہاں پکڑے جاتے ہیں۔ بیرون ملک بھی یہ غیرقانونی کام کرنے سے نہیں شرماتے۔ جرائم کرتے جب پکڑے جاتے ہیںتو نام پاکستان کا آتا ہے۔ایسے جرائم پیشہ دو نمبر افغانی بیرون ملک پاکستان دشمن کارروائیوں میں بھی مشغول ہوتے ہیں۔ قدم قدم پر پاکستانیوںکے خلاف رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ کئی ممالک میں تو ان کی پاکستانیوں کے ساتھ دنگے فساد کی بھی خبریں عام ہیں۔ جعلی ویزوں کے اس کاروبار کی جب تک سخت روک تھام نہیں ہوگی‘ ہماری بدنامی ہوتی رہے گی۔۔
٭…٭…٭
لاہور میں صفائی کا کام سست روی کا شکار
خدا خدا کرکے عوام کے شور شرابے پر چند روز قبل صوبائی حکومت جاگ اٹھی تھی اور میڈیا پر فلمیں چلنے لگیں تھیں کہ لاہور کے مختلف علاقوںسے کوڑا کرکٹ اٹھانے کا کام شروع ہو گیا ہے۔ لوگوں نے اس پر سکون کا سانس لیا تھا کہ جلدہی یہ کام سارا نہیں تو آدھا مکمل ہو جائے گا مگر وہی ’’حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے‘‘ چھٹیوں کا بہانہ آڑے آگیا۔ بھلا اس کام کا چھٹیوںسے کیا لینا دینا۔ ہیوی مشینری سے یہ کچرا بڑے بڑے ٹرکوں پر لوڈ کرکے شہر سے باہر پھنکوانا تھا۔ سڑکوں پر صفائی تو نہیں کروانی تھی مگر ہماری روایتی کام چوری کی عادت آڑے آئی۔ یوں سڑکوں کے کنارے گندگی کے ڈھیر اور طویل سلسلے صفائی کے نہ ہونے کی چغلی کھا رہے ہیں۔ اگرچہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ازخود اس گندگی اور کچرے کے ڈھیروں کا نوٹس لیا تھا مگر انتظامیہ پر کیا مجال ہے جو اثر ہوا ہو۔ لگتا ہے لاہور ایک بار پھر ترقی کی بجائے تنزلی کی طرف رواں ہے۔ بس اب ایک چیز کی کمی رہ گئی ہے۔ وہ ہے لاہور میں پہلے کی طرح سڑکوں پر اطمینان سے خراماںخراماں گھومتی پھرتیں‘ گائیں اور بھینسیں یا پھر تانگے چلتے نظر نہیں آتے۔ اگر یہ سب دستیاب ہو جائیں تو لاہوریوں کو ایک مرتبہ پھر اپنا پرانا لاہور نظر آنے لگے گا۔ ہو سکتا ہے حکومت واقعی لاہوریوں کا اپنے ماضی سے رشتہ برقرار رکھنا چاہتی ہے۔
٭…٭…٭
بھارتی کسانوں نے گزشتہ روز یوم ’’دھتکار‘‘ منایا
اسے ہم سادہ اور آسان لفظوں میں ’’یوم پھٹکار‘‘ کہیں تو مزہ دوبالا ہو سکتا ہے کیونکہ جو مزہ پھٹکار میں ہے‘ وہ دھتکار کہنے میں نہیں۔ یہ دن گزشتہ روز کسان تحریک کے ایک ماہ مکمل ہونے پر دہلی کے اردگرد محاصرہ کئے بیٹھے کسانوں نے ہی نہیں‘ پورے بھارت کے لاکھوں کسانوں نے منایا۔ اس موقع پر مودی کی تصویر کے آگے بین بجا کر‘ بالٹیاں‘ تھالیاں‘ ڈول اور پیپے بجا بجا کر ان کی سوئی ہوئی غیرت‘ نہیں نہیں غیرت نہیں‘ اس کی مری ہوئی انسانیت کو جگانے کی کوشش کرتے رہے۔ افسوس ایسا کچھ نہیں ہوا۔ مودی کی تصویر کے آگے بین بجانا بھی بھینس کے آگے بین بجانا ثابت ہوا۔ مودی نے کھلے لفظوں میں پھر کہا ہے کہ متنازعہ زرعی بل واپس نہیں ہوگا۔ سو اب ایک طرف شدید سردی ہے‘ دوسری طرف مودی کی سردمہری ہے۔ درمیان میں ہزاروں پنجابی کسان جن کا تعلق پنجاب اور ہریانہ سے ہے‘ سڑکوںپر بیٹھے جم رہے ہیں۔ ان کے جسم کانپ رہے ہیں مگر ارادے جوان ہیں۔ ہزاروں گبھرو‘ جوان‘ بوڑھے‘ بچے اور خواتین تمام تکالیف برداشت کر رہے ہیں۔ اب بھی اگر مودی کو ہوش نہ آیا تو جلدہی اسی کسان تحریک سے خالصتان کا سویا ہوا شیربیدار ہوگا اور مودی بکری کی جان بھارت مہان سے اپنا حصہ نوچ کر ہی علیحدہ ہوگا۔