چمن اور بھی ، آشیاں اور بھی ہیں
ملک میں تعمیرات کے شعبے کو کھولنے سے نئے جہانوں کی کہکشاں روشن ہو گئی ہے، حکومت نے پچاس لاکھ گھروں اور ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ کیا تھا۔ اس مقصد کے لئے کرونا کے دنوںمیں جب کاروباربند تھا ا ور پوری دنیا قیامت کے نشانے پر تھی تو پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان کا ویژن کام کر گیا، انہوںنے کنسٹرکشن کا شعبہ کھول دیا، اس سے فوری طور پر دیہاڑی دار کی روزی روٹی کا راستہ کھل گیا، مستریوں کی کمائی کھل گئی اور جب کنسٹرکشن کا ایک شعبہ کھلتا ہے تو ا سکے ساتھ منسلک تین درجن سے زیادہ کاروبار بھی کھلتے ہیں۔
حکومت کے دعوے تو سنتے ہی رہتے ہیں کہ سیمنٹ پچپن ارب کا فروخت ہو گیا ، میںنے اس کی تصدیق کے لئے اسلام آباد ایک بہت بڑے بلڈر کوفون کیا، انہوںنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پربتایا کہ حکومت کے فیصلے درست ہیں اور کنسٹرکشن میں بے پناہ سرمایہ کاری ہورہی ہے، اس لئے کہ سرمایہ لگانے والوں سے کوئی پوچھ گچھ نہیںکی جائے گی کہ منی ٹریل کیا ہے،۔ گویا یہ ایک لحاظ سے ایمنسٹی ا سکیم ہے اور ملک میں جب بھی کسی ایمنسٹی کا اعلان ہوتا ہے تو لوگ اس سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ اس سے اور کچھ ہو یا نہ ہو مگرکئی قسم کے روز گار کھل جاتے ہیں۔ میرے شہر قصور کو جانے والی سڑک اور ریلوے لائن پر نئی سے نئی ہائوسنگ سوسائیٹیاں بن رہی ہیں، جوپرانی سوسائیٹیاںتھیں ان کی قسمت جاگ گئی ہے، رائے ونڈ روڈ پر لیک سٹی، انجینیئرز ٹائون ، ایل ڈی اے ایوینیو کا نیا شہر لاہور بس رہا ہے اور اس سے ملحقہ پارک ایونیو وسیع وعریض رقبے پر پھیلی ہوئی ہے، چند برس قبل اس کے ادبی ذوق کے حامل بلڈر افتخار سندھو جو ہماری پی سی آئی میں دو مرتبہ تشریف لائے تو نت نئی رکاوٹوں کا شکوہ کر رہے تھے مگر اب ان کی اسکیم ایل ڈی اے سے منظور ہوچکی ہے، بجلی کا نظام زیر زمین بچھایا جا رہا ہے اور وزیر اعظم کی اسکیم ون ونڈو کے تحت باقی سہولتوں کی فراہمی بھی اب کوئی مشکل بات نہیں، میں تین سال قبل یہاں گیا تھا تو صرف نقشے ترتیب ہورہے تھے مگر اب گھر بنتے نظر آتے ہیں، ایل ڈی اے ایونیو کی بیلٹنگ بھی ہو گئی ہے،وزیر اعظم نے لاہور کے شمال میں راوی ہائوسنگ کا ایک بڑا منصوبہ بنایا ہے، جس پر گیارہ ہزار ارب روپے مختص کئے گئے ہیں یہ ایک لحاظ سے موجودہ لاہور سے بھی بڑا شہر ہو گا،۔اسی اسکیم سے ملحق جی ٹی روڈ کے مغربی جانب اور کوٹ عبدالماک انٹر چینج پر لاہور موٹر وے سٹی کا منصوبہ پروان چڑھ چکاہے، یہ منصوبہ اکہتر سے کھٹائی میں پڑا تھا، کئی سرمایہ کار آئے اور کوڑی کوڑی کے محتاج ہو کر واپس گئے مگر اب پاک فوج کے دو ریٹائرڈ افسروں میجر اعجاز اور کیپٹن طارق نے اس میں دلچسپی لی ۔ یہ دونوں دوست مینجمنٹ کی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں کیپٹن طارق نے تو پچاسی میں ایک بڑے سیاست دان کی الیکشن مہم کومنظم کیاا ور اسے بام عروج تک پہنچایا۔ ان دونوں کی حوصلہ شکنی کرنے والے بہت تھے کیونکہ لاہور موٹر وے سٹی کئی سرمایہ کاروں کی رقم ڈبو چکا تھا مگر اب قسمت کی دیوی بھی مہربان تھی اور حکومتی پالیسیاںبھی قدم قدم پر ان کی خوش قسمتی کا باعث بنیں ، یہاں جوپلاٹ دس ہزار میں خریدا گیا تھا آج یہ ساٹھ ستر لاکھ تک چلا گیا ہے اور پلاٹ دستیاب بھی نہیں ۔ پلاٹ مالکان بنکوں سے قرض لے کر ا یمنسٹی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مکانوں کو مکمل کرنے کی کوشش میں ہیں۔
مجھے کیپٹن طارق نے بتایا کہ حکومت کو اکتیس دسمبر کی ڈیڈلائن میں توسیع کرنی چاہئے کیونکہ کورونا کی دوسری لہر نے کام کرنے والوں کا راستہ روک رکھا ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ کام کی رفتار سست پڑ گئی ہے مگرملک بھر کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہو تا ہے کہ حکومت کی پالیسی برگ وبار لا رہی ہے، میجر اعجاز دوبئی ایک کام کے سلسلے میں گئے ہیں ان سے واٹس ایپ کال پر رابطہ ہوا وہ بھی کہہ رہے تھے کہ ڈیڈلائن میں توسیع ضروری ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس اسکیم کا فائدہ ا ٹھا سکیں اور ملک میں گھروں کی قلت کا خاتمہ ہو سکے ، ایک مکان بنتا ہے تو ساتھ ہی بھٹہ مزدور ،سیمنٹ ،سریا، بجری تو شروع ہی کی ضرورت ہیں اورمکان کی تکمیل تک تو سیویج۔لکڑی ماربل۔سرامیکس کچن۔ فرنیچر پردہ کلاتھ اے سی پنکھے ،ٹیلی فون، ٹی وی پینٹ وغیرہ کا کاروبار بھی چل نکلتا ہے، کیپٹن طارق تو ایمنسٹی اسکیم سے بے حد خوش نظر آئے، ان کی نظریں گوادر میں سر مایہ کاری پر بھی ہیں، ان کے دوست امتیا ز رفیع بٹ وہاں سرمایہ کاری کر چکے ہیں، گوادر کا مستقبل سی پیک کے ساتھ مربوط ہے اور سی پیک پاکستان کے لئے گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے۔ میجر اعجاز واپس آئیں توان سے تفصیلی تبادلہ خیال کا موقع ملے گا۔
میجر اعجازنے البتہ یہ ضرور کہا ہے کہ نیا پاکستان ہائوسنگ اسکیم سے ایک تو حکومت بیس ارب روپے سب سڈی کے طور پر بانٹنے کاا رادہ رکھتی ہے دوسرے بنکوں سے کہا گیا ہے کہ تین سو ارب آسان مارک اپ پر قرضے دیں اور ان کی واپسی کے لئے معمولی رقم کی اقساط مقرر کریں، ان مراعات سے تعمیرات کے شعبے میں ایک نئی اٹھان دیکھنے میں آئی ہے اور ساتھ ہی نت نئے روز گار کے راستے کھلے ہیں۔
لگتا ہے کہ پچاس لاکھ گھروں اور ایک کروڑ نوکریوں کا ہدف پورا کرنے میںکوئی مشکل نہیں رہی۔
٭…٭…٭