آرٹیکل 66کہتا ہے متنّنہ کے امور عدالتوں میں ذٰڑ ؓحث نہیں لائے جاسکتے: سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے سینٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر تمام ایڈووکیٹ جنرلز، صوبائی اسمبلیوں کے سپیکرز کو نوٹسز جاری کردئیے۔ عدالت نے قرار دیا کہ اگر کوئی جماعت چاہے تو اپنی معروضات جمع کروا سکتی ہے۔ صدارتی ریفرنس پر سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمدکی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔ سماعت کے آ غاز پر اٹارنی جنرل پاکستان نے کہا ریفرنس میں سینٹ الیکشن خفیہ رائے شماری سے نہ کرنے کا قانونی سوال اٹھایا گیا ہے۔ سوال ہے کیا آرٹیکل 226 کا اطلاق صرف آئین کے تحت ہونے والے الیکشن پر ہوتا؟۔ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آپ چاہتے ہیں عدالت آئین اور قانون کے تحت ہونے والے انتخابات میں فرق واضح کرے۔ چیف جسٹس نے کہا چاروں ایڈووکیٹ جنرلز اور الیکشن کمشن کے جواب کا جائزہ لینگے۔ چاروں صوبائی حکومتوں اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کر رہے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کیا قومی اسمبلی کا انتخاب آئین کے تحت نہیں ہوتا؟۔ اٹارنی جنرل نے کہا عام انتخابات الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت ہوئے آئین کے نہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آئین میں سینٹ اور اسمبلی انتخابات کا ذکر ہے۔ انتخابات کیسے ہونے ہیں یہ بات الیکشن ایکٹ میں درج ہوگی، مقامی حکومتوں کے انتخابات کا آئین میں ذکر نہیں۔ الیکشن ایکٹ بھی آئین کے تحت ہی بنا ہے۔ ایکٹ آئین پر غالب نہیں ہو سکتا۔ کیا کوئی قانون آئین سے بالاتر ہو سکتا ہے؟۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال اٹھایا کہ حکومتی ریفرنس قابل سماعت ہے یا نہیں یہ سوال بھی وجود رکھتا ہے۔ آرٹیکل 66کہتا ہے مقننہ کے امور عدالتوں میں زیر بحث نہیں لائے جا سکتے۔ اٹارنی جنرل نے کہا بھارت میں ایسی صورتحال کا سامنا رہا۔ جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے کہا سپریم کورٹ اس تنازعہ میں کیوں مداخلت کرے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا میثاق جمہوریت میں سیاسی جماعتوں نے ووٹوں کی خریدوفروخت روکنے پر اتفاق رائے کیا تھا۔ آپ اس معاملے پر تمام سیاسی جماعتوں کے مابین قومی اتفاق رائے کیوں پیدا نہیں کرتے۔ اٹارنی جنرل نے کہا حکومت نے اس بارے میں ایک آئینی ترمیم کا بل پیش کردیا ہے۔ یہ سیاسی مسئلہ نہیں قانونی ایشو پر عدالتی رائے طلب کی ہے۔ عدالت نے ریفرنس کی سماعت سے متعلق اخبارات میں بھی عوامی نوٹس شائع کرنے کا حکم دیا۔ کیس کی مزید سماعت گیارہ جنوری کو ہوگی۔ سینیٹر فیصل جاوید نے سپریم کورٹ سے باہر میڈیاسے بات کرتے کہا کہ عمران خان دنیا کرکٹ میں نیوٹرل امپائر لائے۔ عمران خان نے الیکشن کی شفافیت کے لیے دھرنا دیا۔ اپوزیشن والے الیکشن میں دھاندلی کی باتیں کرتے ہیں۔ اپوزیشن دھاندلی کی بات کرتی لیکن اوپن بیلٹ کے خلاف ہے۔ ہم الیکشن میں شفافیت چاہتے ہیں، سینٹ انتخابات میں خریدو فروخت ہوتی ہے جو کرپشن ہے۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی میں اسلام آباد کی خواتین کی مخصوص نشتوں سے متعلق توہین عدالت کی درخواست خارج کرتے ہوئے قرار دیا کہ توہین عدالت کی درخواست نا قابل سماعت ہے، مقننہ کے کام میں مداخلت نہیں کر سکتے، سماعت چیف جسٹس کی سربرا ہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ عدالت کے کس حکم کی خلاف ورزی پر توہین عدالت ہوئی، عدالت نے مقننہ کو اسلام آباد خواتین کے مخصوص نشتوں پر قانون سازی کا حکم نہیں دیا، آئین میں ترمیم ہوگی تو کوٹہ مل جائے گا۔ چیف جسٹس نے کہا عدالت کا کام ایسے کام میں مداخلت کرنا نہیں، آپ اپنی سیاسی جدوجہد جاری رکھیں، کبھی نہ کبھی آپ کی جدوجہد کا نتیجہ نکلے گا۔