پتہ نہیں ایم کیو ایم کس مجبوری کے تحت حکومت کے ساتھ ہے: بلاول
کراچی (نوائے وقت رپورٹ) بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ متحدہ کے نظریے اور سیاست کے مطابق اس کا حکومت کے ساتھ مزید ایک دن رہنا عوام کا مطالبہ نہیں۔ پتہ نہیں ایم کیو ایم کس مجبوری کے تحت حکومت کے ساتھ کھڑی ہے۔ کورنگی میں فشرمین چورنگی کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں بلاول نے کہا کہ پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی جو ملک کی پوری معیشت کو چلاتا ہے، افسوس کی بات ہے کہ زمانے سے جو لوگ یہاں سے منتخب ہوتے رہے ہیں وہ ہر حکومت کا حصہ تو رہے ہیں مگر اپنے عوام اور اپنے شہر کو اس کا حصہ نہیں دلوا سکے۔ ہمیں ہمارا حصہ نہ ملنے پر سب سے زیادہ کراچی متاثر ہوا ہے۔ عالمی بینک نے کہا کہ کراچی کے انفراسٹرکچر کے لیے 10 ارب ڈالر کی ضرورت ہے، ہم جب 10 ارب ڈالر کی بات کرتے ہیں تو مذاق اڑایا جاتا تھا۔ کراچی میں سرمایہ کاری ہوگی تو اس کا اثر پورے پاکستان پر ہوگا، کراچی چلے گا تو پورا پاکستان چلے گا۔ وفاق نے فنڈز نہیں دیئے اور نہ بلدیاتی حکومت نے ہمارا ساتھ دیا۔ اس کے باوجود ہم کوشش کر رہے ہیں کہ جو ہو سکے کریں تاکہ کراچی کی مشکلات کم ہوں۔ جبکہ وسائل نہ ہونے کے باوجود عوام کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔ سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ اور ویسٹ مینجمنٹ کا نظام بن رہا ہے، نیبرہوڈ ولیج کراچی کے ہر ضلع تک پہنچے گا۔ ایم کیو ایم کے نمائندے میری پیدائش سے پہلے سے سلیکٹ ہوتے رہے ہیں، ایم کیو ایم کے نمائندوں سے پوچھیں کورنگی کے لیے کیا کیا؟۔ ''زیادہ بات، شور اور حکومت کے مزے لینے والے کراچی کے عوام کی طرف دھیان دیں، ان کی حکومت کا جو طریقہ ہے اس سے کراچی کے عوام کا حق مارا جارہا ہے، مردم شماری کے معاملے پر پیپلز پارٹی کا شروع سے اعتراض موجود ہے۔ کیونکہ مردم شماری غلط ہوگی اور عوام کی نمائندگی ٹھیک نہیں ہوگی تو انہیں ان کے حصے کا حق نہیں ملے گا۔ ایم کیو ایم میری سمجھ سے باہر ہے، ایم کیو ایم کے ووٹوں کی وجہ سے حکومت قائم ہے، آپ اپنی مجبوری کے بجائے عوام کی مجبوری کے بارے میں سوچیں۔ وفاقی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عوام کے لیے کھانے پینے کی اشیا کا بندوبست کرنا، بچوں کو سکول بھیجنا، ادویات خریدنا دوبھر ہوگیا ہے۔ وفاقی حکومت کے اقدامات عوام کی پریشانیوں اور تکالیف میں کمی لانے کے بجائے اس میں اضافہ کر رہے ہیں۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے جزیروں کے معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی ان جزیروں پر قبضے کی کوشش کی گئی پیپلز پارٹی ماہی گیروں کی آواز بن کر سامنے آئی، اس حکومت نے جزیروں پر قبضے کے لیے جو غیر قانونی آرڈیننس منظور کیا تھا اس کی مدت پوری ہوچکی ہے، اب ان کو عوام کے پاس آنا پڑے گا اور میں واضح کردینا چاہتا ہوں کہ یہ جزیرے صوبے کے عوام اور یہاں کے ماہی گیروں کے ہیں اور جب تک ان ماہی گیروں اور عوام کو مطمئن نہیں کریں گے تب تک ہم آپ کو وہاں ایک اینٹ نہیں ڈالنے دیں گے۔ روم ایک دن میں نہیں بنا سکتا‘ کراچی کو ہی آہستہ آہستہ بنائیں گے۔ مراد علی شاہ نے وفاقی وزرا پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے اجلاسوں میں غریب عوام کے مسائل پر گفتگو نہیں کرتے بلکہ یہ بات ہوتی ہے کہ حکومت سندھ کی برائی کیا کی جائے۔ کیونکہ صادق و امین کے چمچے سندھ کی ترقی دیکھ نہیں سکتے۔ وفاقی وزرا پھر میڈیا پر بھی یہ رپورٹ کرتے ہیں اور پھر میڈیا پر اس کا شور مچ جاتا ہے۔ میڈیا کو وزراء کی متنازعہ باتیں درکار ہوتی ہیں اور پھر ایک شور برپا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں سندھ کے دشمن اور یہ چمچے اپنی اپنی بکواس شروع کر دیتے ہیں۔ کراچی کو اپنا وارث سمھجھنے والوں نے کراچی کا جو حال کیا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ تجاوزات کہ ہٹانے کا کام صوبائی حکومت کا کام نہیں ہے بلکہ ڈی ایم سیز اور کے ایم سی کا کام ہے۔ تجاوزات کراتے بھی وہی ہیں اور جب ہٹانے کا وقت آتا ہے تو کہتے ہیں کہ سندھ حکومت کوئی اختیارات نہیں دیتی۔ سید مراد علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ کس نے اختیارات لئے تھے آپ کے؟۔ وفاقی حکومت نے 63 ارب روپے دینے کا وعدہ کیا تھا ہمیں اس سے کم ملے ہیں۔ اسی بنیاد پر ہم پبلک پارٹنرز کی طرف جا رہے ہیں۔ یہ قرضے ہیں جنہیں آنے والی نسلوں کو واپس کرنے ہیں لیکن اس وقت شہر کو ڈویلپمنٹ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔وزیراعلی سندھ نے کہا کہ وفاق کے نمائندے سندھ کے دشمن ہیں‘ یہ لوگ سندھ حکومت کی برائی کرنے کیلئے میٹنگ بلاتے ہیں کہ سندھ حکومت کی برائی کیسے کریں؟۔ مہنگائی کے طوفان سے کیسے جان چھڑانی ہے اس پر کوئی بات نہیں ہوتی۔ کچھ لوگوں کی جانب سے یہ کہا گیا کہ شارع فیصل پر بہت گڑھے ہیں۔ پتہ نہیں یہ کونسی شاہراہ پر گئے تھے؟۔