احتساب قانون کے مطابق نہیں ہوگا تو ادارے کیخلاف ایکشن لیں گے : سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ نیب سے مطمئن نہیں۔ نیب بڑے آدمی پر ہاتھ نہیں ڈالتا۔ سپریم کورٹ کا نیب کے بارے میں یہ تاثر ہے تو عام آدمی کا کیا ہوگا؟۔ نیب پر سرکار کا ہی نہیں ہر طرف سے دبائو ہوتا ہے، لیکن قانون کا اطلاق سب پر برابر ہونا چاہئے۔ احتساب بھی قانون کے مطابق ہونا چاہیے لیکن اگر احتساب قانون کے مطابق نہیں ہوگا تو ادارے کیخلاف ایکشن لیں گے۔ سپریم کورٹ نے کراچی کے باغ ابن قاسم کرپشن کیس کی سماعت کے دوران ملزم ڈاکٹر ڈنشاہ کی ضمانت منظور کرلی جبکہ سابق ڈی جی پارکس لیاقت قائم خانی کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے اور دیگر ملزموں کی ضمانتوں کی درخواستوں کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی ہے۔ پراسیکیوٹر جنرل نیب نے موقف اپنایا کہ وہ ڈاکٹر ڈنشاہ کی درخواست ضمانت کی مخالفت نہیں کریں گے تاہم سرکاری افسروں کی ضمانت کی مخالف کریں گے۔ اس پر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ نیب ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے نہ لگائے، چھوٹے افسران کو پکڑ لیا اصل فائدہ لینے کو پکڑتے نہیں۔ نیب کے پاس اپنی مرضی سے کام کرنے کا اختیار نہیں، ملک کو بچانا ہے یا نہیں؟۔ ملک میں بکری چور پانچ سال جیل چلا جاتا ہے لیکن اس سکینڈل کے اصل ملزم پر نیب نے ہاتھ نہیں ڈالا۔ نیب نے اپنی مرضی کرنی ہے تو سیکشن 9 میں ترمیم کرے پھر جو مرضی کرے ۔ پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا نیب اپنی مرضی نہیں کرتا۔ ملزم کو پکڑ کر 24گھنٹوں میں احتساب عدالت میں پیش کردیا جاتا ہے۔ جسٹس مظاہر نقوی کا کہنا تھا کہ اس ملک کے ساتھ نیب کیا کر رہا ہے؟۔ کرتا نیب ہے بھگتتی سپریم کورٹ ہے کیونکہ ملزم کو چھوڑنے کا الزام سپریم کورٹ پر آتا ہے۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ نیب بڑے آدمی پر ہاتھ نہیں ڈالتا۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ نیب کی کارکردگی رپورٹ پڑھی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ نیب نے اربوں روپے اکٹھے کیے ہیں، ہم نیب سے مطمئن نہیں ہیں، نیب کو کام سے کون روکتا ہے ہمیں بتائیں تاکہ اسے پکڑیں، نیب کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں لیکن یہ نہیں ہونا چاہیے کہ کسی نے مجھ پر مہربانی کی تو میں اس پر مہربانی کروں۔ نیب کو بہادری اور اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ ہمارے اوپر کوئی دبائو نہیں کوئی کام سے نہیں روکتا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سینٹ سمیت مختلف فورمز پر نیب سے متعلق بات ہو رہی ہے۔ نیب نے سرکاری افسروں کو دبایا اصل فائدہ اٹھانے والوں کو پوچھا نہیں۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا پہلا ریفرنس دوسرا ریفرنس یہ کیا مذاق بنایا ہوا ہے؟ معلوم ہے کہ نیب مقدمات عام فوجداری کیسز نہیں ہوتے، نیب جس کیخلاف شواہد ہوں اسے گرفتار نہیں کرتا نیب سرکاری افسروں کو سب پہلے گرفتار کر لیتا ہے۔ ملزم کے وکیل نے کہا عدالت ملزموں کیساتھ ہونے والی زیادتی کو بھی دیکھے۔ جسٹس مظاہر نقوی نے وکیل سے کہاکہ وہ چوری ڈکیتی کے ملزموں کے مقدمات کے حوالے دے رہے ہیں، جو ڈکیتی ملک کیساتھ ہو رہی ہمیں اس کی فکر ہے، ملک میں لوگوں کو سر درد کی دوائی تک نہیں مل رہی۔ ایسے حالات میں کرپشن کے ملزموں کیلئے دل کیسے بڑا کریں؟۔ وائٹ کالر کرائم کے ملزموں پر ہلکا ہاتھ کیوں رکھیں، آرٹیکل دس اے کی غلط تشریح کی جا رہی ہے، ضمانت تب ہی ملتی ہے جب ٹھوس شواہد نہ ہوں لیکن لیاقت قائم خانی کیخلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ لیاقت قائم خانی پر صرف اعتراض نہ کرنے کا الزام ہے۔ جسٹس مظاہر نقوی نے کہاکہ لیاقت قائم خانی زمین منتقل نہ کرتے تو اربوں کا سکینڈل نہ بنتا، پورے ملک کی ڈکیتیاں ایک طرف اور یہ مقدمہ ایک طرف ہے۔