درویش منش لیڈر
یہ بات درست ہے کہ ہیرے کی قدر و قیمت صرف جوہری ہی جانتا ہے بعض مرتبہ ہیرا انسان کی آنکھوں کے سامنے موجود ہوتا ہے مگر بہت سارے لوگ اسے نہ پرکھنے کے باعث کھو دیتے ہیں وقت گزرنے کے بعد جب عقل و دانش اور احساس کی آنکھ کھلتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ ہیرے کی پہچان نہ کر کے ہم نے کتنی بڑی غلطی کی ہے۔یہ نڈر اور ہیرا شخصیت کے حامل امیر جماعت اسلامی اور سینیٹر سراج الحق خان ہیں۔آپ ایک انتہائی سادہ مزاج کے مالک ہیں۔ آپ کی ایک ادا یہ بھی ہے آپ سودی نظام کیخلاف ہیں جس کی کھلم کھلا مخالفت کرتے ہیں آپ واحد سینٹر اور صوبائی اسمبلی سے وابستہ ہونے کے باوجود مزے داری کی بات یہ ہے کہ جن کا سود کیوجہ سے کوئی بینک اکاؤنٹ نہیں ہے۔ جماعت کے اندر جمہوریت کا اعجاز ہے کہ ایک مزدور کا بیٹا مرکزی امیر بن گیا ہے، جو سکول پڑھنے کیلئے سائیکل پرسات کلو میٹر دور جاتا تھا،غربت کا یہ عالم تھا کہ بستہ نہ ہونے کی وجہ سے سکول سے نکال دیا گیا۔ کالج میں ہاسٹل کے اخراجات مزدوری کرکے پورے کرتا تھا۔ ایک تقریب میں سراج الحق نے کہا کہ مَیں زمانہ طالب علمی میں پہلی بار اسلام آباد آیا تو مجھے رات گزارنے کیلئے کوئی جگہ نہیں ملی ، بازار بند ہوا تو ایک دکان کے باہر پڑے پھٹے پرسو گیا۔سراج الحق سینئر صوبائی وزیر بن کر بھی عام مسافروں کے ساتھ بسوں میں سفر کرتے رہے۔سراج الحق کے خیالات، بیانات اور انداز میں عوام کیلئے ایک کشش موجود ہے۔ وہ عام آدمی کے مسائل کی بات کرتے ہیں تو اس میں سچائی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ ان کا نعرہ: ’’اسلامی پاکستان۔ خوشحال پاکستان‘‘ کوئی نیا نعرہ نہیں ہے، بلکہ یہ جماعت کی ساری جدوجہدکا محور رہا،دلوں کو گرماتا اورولولوں کو سلگاتا رہا۔امیر جماعت اسلامی منتخب ہونا اگر چہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے مگر یہ کوئی فخر و غرور کی بات بھی نہیں، امیر جماعت کا عہدہ در حقیقت ایک آزمائش اور امتحان ہے اور وہ بھی کڑا جب پہلی بار اس مرد مومن درویش شخص سینیٹر سراج الحق نے امیر جماعت اسلامی کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد آپ نے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا میرے کندھوں پر بہت بڑی ذمہ داری آن پڑی ہے میں دعا گو ہوں کہ اللہ پاک مجھے اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ جماعت اسلامی کی سربراہی کانٹوں بھری راہ گزر ہے، جس پر ہر مرحلے میں بڑا ہی سوچ سمجھ کر چلنا پڑتا ہے دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح امیر جماعت اپنے فیصلوں میں آزاد اور خود مختار نہیں ہوتا،بلکہ مجلس شوریٰ اور مجلس عاملہ کے فیصلوں پر عملدرآمد کا پابند ہوتا ہے،اور عملدرآمد کے حوالے سے جوابدہ بھی۔ بانی جماعت اسلامی مولانا سید ابوالاعلی مودودی رحمتہ اللہ علیہ نے جماعت کا نظم تشکیل دیتے وقت اس عہدہ کو قابل مواخذہ بنا دیا تھا ،یہی وجہ ہے کہ امیر جماعت کوئی بھی ہو وہ ہر کام اور فیصلہ مشاورت سے کرنے کا پابند ہے،جماعت اسلامی میں احتساب کا بھی ایک کڑا نظام موجود ہے، راقم الحروف کی جماعت اسلامی کیساتھ ایک عرصہ سے گہری وابستگی ہے اور ذاتی طور پر ایسے بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں، جماعت کیلئے جن کی خدمات ناقابل فراموش ہیں جن میں سابق امیر جماعت اسلامی قصور حافظ نذیر احمد ایڈووکیٹ، اسی ضلع سے عثمان غنی، سردار نور احمد ڈوگر،موجودہ امیر ضلع قصور ڈاکٹر راؤ اختر علی، پروفیسر اختر عزمی اور کسان بورڈ پاکستان کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات حاجی محمد رمضان کی خدمات قابل ستائش ہیں۔ جماعت اسلامی ملک کی واحد نظریاتی جماعت ہے جو آزادی کشمیر پر یقین رکھتی ہے۔کشمیریوں کے شانہ بشانہ جماعت اسلامی کی اس روشن جدوجہد کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔منصورہ میں کسان بورڈ پاکستان کی ایک تقریب میں مرکزی سیکرٹری اطلاعات کسان بورڈ حاجی محمد رمضان صاحب کے ہمراہ جانے کا اتفاق ہوا وہاں تقریب میں سراج الحق کا خطاب شامل نہیں تھا ان کی اچانک آمد پر کسان بورڈ کے مرکزی صدر نے ان سے تقریب سے خطاب کرنے کا وقت مانگا آپ نے فرمایا ٹھیک ہے نماز ظہر کی جماعت کھڑی ہونے میں بیس منٹ باقی ہیں میں 15 منٹ کا خطاب کر سکتا ہوں لہذا آپ نے اپنا خطاب شروع کیا اور ابھی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ پندرہ منٹ ہوگئے اور اپنی بات مکمل کیے بغیر چھوڑ کر سیدھے مسجد چلے گئے.۔ درویش منش سراج الحق کی جماعت اسلامی مروجہ سیاست اور موجود نظام کو چیلنج کرتی قوت بن کر ابھر رہی ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک عوام نے ہر سیاسی پارٹی کو حکومت کرتے ہوئے دیکھ لیا ہے اب ایک موقع اس درویش لیڈر کو بھی دے کر دیکھ لیں یہی وہ لیڈر ہے یہی وہ سیاسی و مذہبی جماعت ہے جو عوام کی امنگوں پر پورا اتر سکتی ہے۔