کسانوں کا احتجاج مذہبی نہیں ، قانونی تنازعہ حل کرنا ہوگا: کال تخت سے ڈیڑھ ماہ بعد بیان
نئی دہلی (نوائے وقت رپورٹ+ انٹرنیشنل ڈیسک+ این این آئی) ڈیڑھ ماہ گزر گیا۔ بھارتی کسانوں کا زرعی قوانین کے خلاف غصہ کم نہ ہوا۔ متنازعہ قوانین کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ پنجاب اور نئی دہلی میں دھرنے جاری ہیں۔ ہریانہ میں سرکار نواز کاشتکاروں کا ڈرامہ فلاپ ہوگیا۔ مظاہرین پولیس حصار توڑ کر پنڈال میں پہنچ گئے۔ پولیس بھاگنے پر مجبور ہوگئی۔ کانگریس نے وزیراعظم مودی سے استعفے کا مطالبہ کردیا۔ ہریانہ کے وزیراعلیٰ کا مظاہرین نے ہیلی کاپٹر لینڈ نہ کرنے دیا۔ وہ زرعی قوانین کے فوائد گنوانے آئے تھے۔ لینڈنگ کے مقام پر پولیس سے جھڑپیں ہوئیں۔ شرکاء نے ڈائس اور کرسیاں اٹھا کر پھینک دیں اور بینرز پھاڑ دیئے۔ بھارتی سرکار عوام کا عزم توڑنے میں ناکام رہی۔ 26جنوری کو نام نہاد یوم جمہوریہ پر بڑے مظاہرے کی تیاریاں جاری ہیں۔ احتجاج کرنے والے کسانوں سے متعلق سکھوں کے سب سے بڑے مذہبی مرکز شری اکال تخت صاحب کے جتھہ دار گیانی ہرپریت سنگھ نے کہا ہے احتجاج کا معاملہ مذہبی ہے اور نہ ہی یہ سکھ رسم ورواج کے خلاف ہے۔ یہ ایک قانونی معاملہ ہے جسے کسان رہنماؤں اور حکومت کو مل کر حل کرنا ہوگا۔ ڈیڑھ ماہ بعد اپنے ویڈیو پیغام میں کہا ہے ہزاروں کسان زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کررہے ہیں، یہ سکھ مذہب اور رسم ورواج سے جڑامسئلہ نہیں ہے۔ کسانوں میں صرف سکھ ہی نہیں دیگر مذاہب کے لوگ بھی شامل ہیں۔ شری اکال تخت اس معاملے میں کوئی مداخلت نہیں کرسکتا ہے۔ تاہم ہم یہ ضرور چاہتے ہیں کہ یہ معاملہ جلد حل ہونا چاہیے۔ احتجاج کرنیوالے کسانوں کو سہولتیں دی جائیں اوران کی بات سنی جائے۔ کسانوں سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ کہ امن اور شانتی بنائے رکھیں۔ پوری دنیا ان کے احتجاج کو دیکھ رہی ہے۔